بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 رمضان 1445ھ 29 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

نمازوں کا فدیہ


سوال

نمازوں کا فدیہ اور اس کے ثبوت کے بارے میں راہ نمائی  فرمائیں!

جواب

نماز کے فدیہ سے متعلق شریعت میں صریح نص نہیں ہے، بلکہ روزے سے متعلق جو نصوص ہیں، ان پر فقہائے کرام نے نماز کے فدیہ کو قیاس کیا ہے،  چناں چہ اگر کسی آدمی کا انتقال ہوجائے اور اس کے ذمہ قضا نمازیں باقی ہوں تو  اگر اس نے اپنی قضا نمازوں کا فدیہ ادا کرنے کی وصیت کی ہو تو ورثہ پر لازم ہے کہ اس کے ایک تہائی ترکہ  میں سے فی نماز ایک فدیہ ادا کریں، لیکن ایک تہائی سے زائد سے فدیہ ادا کرنا واجب نہیں ہوگا، اسی طرح اگر اس نے وصیت ہی نہ کی ہو تو بھی ورثہ پر فدیہ ادا کرنا لازم  نہیں، البتہ ادا کرنے سے ادا ہوجائے گا اور میت پر بڑا احسان ہوگا۔

ایک نماز کا فدیہ ایک صدقہ فطر کے برابر ہے، اور روزانہ وتر کے ساتھ چھ نمازیں ہیں تو ایک دن کی نمازوں کے فدیے بھی چھ ہوئے۔ اور ایک صدقہ فطر تقریباً پونے دو کلو گندم یا آٹا یا اس کی قیمت ہے۔

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (2/ 72):

"(ولو مات وعليه صلوات فائتة وأوصى بالكفارة يعطى لكل صلاة نصف صاع من بر) كالفطرة  (وكذا حكم الوتر)". فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144104200863

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں