بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 رمضان 1445ھ 29 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

نرینہ اولاد کے لیے دوسری شادی کرنا


سوال

ایک شخص کی شادی کے بعد بیٹی ہوئی اور فوت ہو گئی، اس کے بعد دوبارہ ہوئی جو کہ دو سال کی ہے اور تیسری بھی ہونے والی ہے۔ وہ شخص ملازم ہے اور گنجائش رکھتا ہے کہ دوسری شادی کر لے تو کیا محض لڑکیوں کے زیادہ ہونے کی بنا پر وہ شخص دوسری شادی کر سکتا ہے؟ جب کہ لوگ اس بات سے منع کرتے ہیں کہ شادی کرنا صرف لڑکیاں پیدا ہونےکی بنا پر اللہ تعالیٰ کی نعمتوں پر ناشکری میں آتا ہے، اور  {والله مع الصابرین} والی آیتِ مبارکہ کے منافی ہے، اور بے شک انسان جلد باز ہے والی آیتِ  مبارکہ کی زمرے میں آتا ہے۔ راہ نمائی فرمائیں!

جواب

واضح رہے کہ اولاد کا مذکر یا مؤنث ہونا اللہ کے ہاتھ میں ہے، اللہ تعالیٰ جس کو چاہتے ہیں مذکر اولاد عطا فرماتے ہیں اور جس کو چاہتے ہیں مؤنث اولاد عطا فرماتے ہیں اور جسے چاہتے ہیں مذکر اور مؤنث دونوں قسم کی اولاد عطا فرماتے ہیں، اور جسے چاہتے ہیں کچھ بھی عطا نہیں فرماتے۔

صورتِ مسئولہ میں مؤنث اولاد بھی بہت بڑی نعمتِ خداوندی ہے، البتہ مذکر اولاد کی خواہش رکھنے کی شرعاً کوئی ممانعت نہیں ہے، جب کہ وہ لڑکی ہونے کو ناپسند نہ کرے، دل میں تنگی محسوس نہ کرے، اسے عار نہ سمجھے، لہٰذا مذکورہ شخص اگر جسمانی طاقت اور مالی استطاعت رکھتا ہے اور ایک سے زائد بیویوں میں برابری کرنے پر قدرت رکھتا ہو تو اس خواہش کے پیشِ نظر اس کے لیے دوسری شادی کرنا بلاکراہت جائز ہے، اگر یہ شرائط نہ پائی جائیں تو دوسری شادی نہیں کرنی چاہیے۔ ضروری نہیں کہ دو، تین مرتبہ بیٹیاں پیدا ہوئیں تو آئندہ پہلی بیوی سے نرینہ اولاد پیدا نہیں ہوگی، بسا اوقات اللہ تعالیٰ کئی بیٹیوں کے بعد بیٹا دیتے ہیں، اور بسا اوقات کئی بیٹوں کے بعد بیٹی ہوجاتی ہے، اور یہ بھی ممکن ہے کہ دوسری شادی کی جائے اور اس سے بھی بیٹی ہی پیدا ہو، اور یہ بھی ممکن ہے کہ دوسری شادی کے بعد اولاد ہی نہ ہو۔ اس لیے کسی ایک رُخ کو ہی ذہن میں اس طور پر بٹھادینا کہ کسی کی حق تلفی ہو، اس کی شرعاً اجازت نہیں۔  دوسری شادی کے جواز کا معیار بیان کردیا گیا ہے کہ اگر مالی و جسمانی استطاعت ہے اور عدل و برابری پر قدرت رکھتا ہے تو دوسری شادی کرسکتاہے، چاہے اولاد ہو  یا نہیں، بہر صورت صرف مؤنث اولاد ہونے کی وجہ سے پہلی بیوی کے ساتھ کسی قسم کا منفی رویہ رکھنا یا اسے منحوس سمجھنا یا اس کی حقوق کی ادائیگی میں کمی کرنا شرعاً جائز نہیں ہوگا۔

قرآن شریف میں ہے:

{لله ملك السمٰوٰت والأرض يخلق ما يشاء يهب لمن يشاء إناثا ويهب لمن يشاء الذكور أو يزوجهم ذكرانا وإناثا ويجعل من يشاء عقيما إنه عليم قدير} [الشورى]

ترجمہ: اللہ کی ہی سلطنت ہے آسمان اور زمین کی، وہ جو چاہتا ہے پیدا کرتا ہے، جس کو چاہتاہے بیٹیاں عطا فرماتاہے اور جس کو چاہتا ہے بیٹے عطا فرماتا ہے، یا ان کو جمع کردیتا ہے بیٹے بھی اور بیٹیاں بھی، اور جس کو چاہے بے اولاد رکھتا ہے، بے شک وہ بڑا جاننے والا بڑی قدرت ہے۔ (از بیان القرآن)

فتاویٰ شامی میں ہے:

"(يجب) وظاهر الآية أنه فرض، نهر  (أن يعدل) أي أن لايجور (فيه) أي في القسم بالتسوية في البيتوتة (وفي الملبوس والمأكور) والصحبة (لا في المجامعة) كالمحبة بل يستحب.

(قوله: وظاهر الآية أنه فرض) فإن قوله تعالى: {فإن خفتم ألا تعدلوا فواحدةً} أمر بالاقتصار على الواحدة عند خوف الجور، فيحتمل أنه للوجوب، فيعلم إيجاب العدل عند تعددهن كما قاله في الفتح أو للندب، ويعلم إيجاب العدل من حديث إنه إنما يخاف على ترك الواجب كما في البدائع، وعلى كل فقد دلت الآية على إيجابه، تأمل".  (3/201، 202، باب القسم بين الزوجات، ط: سعيد) فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144012201388

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں