بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

7 شوال 1445ھ 16 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

نجاستِ غلیظہ کی کتنی مقدار معاف ہے؟


سوال

ہمارے مولوی صاحب کہتے ہیں کہ اگر ایک درہم کی مقدار سے کم پیشاب کے چھینٹے پڑ جائیں تو وہ ناپاکی  کے زمرے میں نہیں آتے،  آپ کے نزدیک یہ بات کس حد تک درست ہے؟

جواب

واضح رہے کہ اگر پیشاب کے باریک چھینٹے بدن یا کپڑوں پر پڑجائیں اور نظر نہ آتے ہوں تو وہ معاف ہیں، اس لیے کہ ان سے بچنا مشکل ہے اور اس حالت میں اگر لاعلمی میں نماز پڑھ لی تو نماز ہوجائے گی، لیکن اگر نظر آرہے ہیں ہوں اور مجموعی طور پر ایک بڑے سکے کے پھیلاؤ سے زیادہ ہوں تو پھر وہ معاف نہیں ہوں گے اور ان کے ساتھ نماز جائز نہیں ہوگی۔

لہٰذا صورتِ مسئولہ میں اگر واقعۃً کوئی مولوی صاحب یہ کہتے ہیں کہ ’’اگر ایک درہم کی مقدار سے کم پیشاب کے چھینٹے پڑ جائیں تو وہ ناپاکی  کے زمرے میں نہیں آتے‘‘،  تو ان کا یہ کہناصحیح نہیں ہے۔   پیشاب کا ایک چھینٹا بھی ناپاک ہے، لیکن اتنی مقدار اگر بدن یا کپڑوں پر لگی رہ گئی اور پتا نہ چلا تو وہ معاف ہے اور اس حالت میں پڑھی گئی نماز ادا ہوجائے گی، لیکن اگر نجاست کے لگنے کا علم ہو اور اس کو دھونے میں حرج نہ ہو تو دھونا بہتر اور احتیاط پر مبنی ہے اگرچہ وہ ایک درہم سے کم ہوں، اور اگر ایک درہم کی مقدار کے برابر ہوں تو علم ہوتے ہوئے ان کے ساتھ نماز ادا کرنا مکروہِ تحریمی ہے۔

الدر المختار میں ہے:

"(و) عفي ... (وبول انتضح كرءوس إبر)".

وفي الرد:

"فرءوس الإبر تمثيل للتقليل، كما في القهستاني عن الطلبة، لكن فيه أيضًا عن الكرماني: أن هذا ما لم ير على الثوب، وإلا وجب غسله إذا صار بالجمع أكثر من قدر الدرهم". (الدر المختار مع رد المحتار 1/322، ط: سعيد)

وفيه أيضًا:

"وقد نقله أيضاً في الحلية عن الينابيع، لكنه قال بعده: والأقرب أن غسل الدرهم وما دونه مستحب مع العلم به والقدرة على غسله، فتركه حينئذ خلاف الأولى، نعم الدرهم غسله آكد مما دونه، فتركه أشد كراهةً كما يستفاد من غير ما كتاب من مشاهير كتب المذهب. ففي المحيط: يكره أن يصلي ومعه قدر درهم أو دونه من النجاسة عالماً به؛ لاختلاف الناس فيه". (1/317) فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144104200336

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں