بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 رمضان 1445ھ 29 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

نا محرم سے موبائل پر دوستی کرنا / لڑکی کا خود سے نکاح کرنا


سوال

ایک لڑکی کا جاب کے سلسلہ میں ایک لڑکے سے موبائل پر رابطہ ہوا، جس کے بعد ان کی آپس میں دوستی ہوگئی، لڑکا اپنی بیوی کو طلاق دیا ہوا ہے، اس کے ساتھ اس کے تین بچے بھی رہتے  ہیں،  اب یہ دونوں آپس میں نکاح کرنا چاہ رہے ہیں، جب کہ لڑکی کے گھروالے راضی نہیں ہیں، کیوں کہ لڑکی کنواری اور کم عمر ہے،  اور اسے سمجھ نہیں ہے، وہ اس مرد کی باتوں میں آگئی ہے۔

لڑکا اس لڑکی کے لیے نا محرم ہے، کیا اس کے باوجود ان کے لیے آپس میں باتیں کرنا جائز ہے؟

گھر والوں کی اجازت کے بغیر لڑکی کیا اس مرد سے شادی کرسکتی ہے؟

لڑکی کے والد کا انتقال ہوچکا ہے، والدہ گھر کا سارا نظام چلا رہی ہیں،  وہ کہتی ہیں کہ میں خاندان والوں اور معاشرے کو  کیا جواب دوں گی کہ میں نے اپنی بیٹی کی شادی ایسے شخص سے کردی ہے۔ برائے کرم وضاحت فرمادیں کہ والدین کو ناراض کرکے یہ اقدام کرنا درست ہوگا؟

جواب

1۔ صورتِ مسئولہ میں مذکورہ شخص اور لڑکی ایک دوسرے کے لیے نا محرم ہیں، ان کا آپس میں باتیں کرنا شرعاً جائز نہیں، جب تک ان کا آپس میں نکاح نہ ہوجائے دونوں کو رابطہ قطع کردینا چاہیے۔ نیز اگر لڑکی کو اپنا نان نفقہ اٹھانے کی شدید مجبوری نہیں ہے تو اس کے لیے ایسے ماحول میں ملازمت کرنے کی اجازت نہیں ہے۔

2۔ صورتِ  مسئولہ میں گھر والوں کی اجازت کے بغیر خود سے نکاح کرنا درست عمل نہیں، یہ شرعاً اور عرفاً ہر اعتبار سے سخت ناپسندیدہ اور قابلِ حوصلہ شکنی ہے، تاہم اگر عاقل بالغ مرد و خاتون دو گواہوں کے سامنے با ضابطہ نکاح کی غرض سے ایجاب و قبول کرلیں تو اس سے نکاح منعقد ہو جاتا ہے، البتہ اگر لڑکی نے غیر کفو میں خود سے نکاح کرلیا ہو، تو اس کے ولی کو نہ صرف اعتراض کا حق حاصل ہوتا ہے،  بلکہ  اولاد ہونے سے پہلے پہلے بذریعہ عدالت ایسا نکاح فسخ کرانے کا بھی حق ہوتا ہے۔

  اور کفو کا مطلب یہ ہے کہ  لڑکا دین، دیانت،  نسب، مال و  پیشہ اور تعلیم میں لڑ کی کے ہم پلہ ہو ، اس سے کم نہ ہو، نیز  کفاءت میں مرد  کی جانب کا اعتبار ہے یعنی لڑکے کا لڑکی  کے  ہم پلہ اور برابر ہونا ضروری ہے، لڑکی کا لڑکے کے برابر ہونا ضروری نہیں ہے۔

بہرحال لڑکی کو چاہیے کہ وہ از خود کوئی قدم اٹھانے کی بجائے یہ معاملہ عائلی مسائل کے حوالے سے تجربہ رکھنے والے خاندان کے بڑوں بزرگوں  کے حوالہ کرے، اگر وہ واقعۃً اس جگہ اس کے لیے رشتہ مناسب سمجھیں تو وہ عزت اور پردے سے کرادیں، اگر وہ اسے نامناسب سمجھیں تو لڑکی کو چاہیے کہ وہ اپنے بڑوں کو اپنا خیرخواہ سمجھ کر ان کی رائے پر اعتماد کرے، اس میں اسے کامیابی اور سکون حاصل ہوگا۔

فتاوی تاتارخانیہ میں ہے:

"ثم المرأة إذا تزوجت نفسها من غير كفؤ صح النكاح في ظاهر الرواية... و لكن للاولياء حق الإعتراض. و في الكافي: ما لم تلد منه". ( كتاب النكاح، الكفاءة، ٣ / ٦٣، ط: ادارة القرآن) فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144107200100

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں