بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 رمضان 1445ھ 28 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

ناپاک کپڑوں میں نماز پڑھنے کا حکم


سوال

ناپاک کپڑے میں نماز پڑھنے کا حکم کیا ہے؟

جواب

نماز کے درست ہونے لیے کپڑوں کا پاک ہونا ضروری ہے، ناپاک کپڑوں میں نماز  ادا کرنا جائز نہیں ہے اور اس سے نماز ادا نہیں ہوتی،  البتہ اگر کپڑوں پر معمولی نجاست ہو اور اس کے ساتھ نماز ادا کرلی تو نماز ادا ہوجاتی ہے، اس کی تفصیل یہ ہے کہ  نجاست کی دو قسمیں  ہیں :

 (1) نجاستِ غلیظہ:  مثلا آدمی کا پاخانہ، پیشاب، شراب، خون ، جانوروں کا گوبر، اور حرام جانوروں کا پیشاب وغیرہ،  یہ اگر سیال(بہنے والی)  ہوتو  ایک روپے کے پھیلاؤ کے بقدر معاف ہے، اور اگر گاڑھی ہو تو  ساڑھے چار ماشے وزن تک معاف ہے، اس سے زیادہ ہو تو نماز  نہیں ہوگی۔

 (2) نجاستِ خفیفہ: مثلاً  حلال جانوروں کا پیشاب ، حرام پرندوں کی بیٹ وغیرہ،  یہ کپڑے کے چوتھائی حصے تک معاف ہے، چوتھائی کپڑے سے مراد کپڑے کا وہ حصہ جس پر نجاست لگی ہو، مثلاً آستین الگ شمار ہوگی، دامن الگ شمار  ہوگا۔

         اور معاف ہونے  کا مطلب یہ ہے کہ اسی حالت میں نماز پڑھ لی تو نماز ہوجائے گی، اور دوبارہ لوٹانا ضروری نہیں ہے، لیکن اس نجاست کا دور کرنا اور کپڑے کا پاک کرنا بہرحال ضروری ہے، اور اگر نجاست کا پہلے سے علم ہو تو کپڑے کو پاک کرکے نماز ادا کرنی چاہیے، اور ایسی صورت میں نماز کے بعد کپڑے پاک کرکے نماز دہرا لینا بہتر  ہے۔

اللباب فی شرح الکتاب میں ہے:

"(ومن أصابه من النجاسة المغلظة كالدم والبول) من غير مأكول اللحم ولو من صغير لم يطعم (والغائط والخمر) وخرء الطير لا يزرق في الهواء كذجاج وبط وإوز (مقدار الدرهم فما دونه جازت الصلاة معه: لأن القليل لا يمكن التحرز عنه؛ فيجعل عفواً، وقدرناه بقدر الدرهم أخذاً عن موضع الاستنجاء (فإن زاد) عن الدرهم (لم تجز) الصلاة، ثم يروى اعتبار الدرهم من حيث المساحة، وهو قدر عرض الكف في الصحيح، ويروى من حيث الوزن، وهو الدرهم الكبير المثقال، وقيل في التوفيق بينهما: إن الأولى في الرقيق، والثانية في الكثيف، وفي الينابيع: وهذا القول أصح، ........

(وإن أصابته نجاسة مخففة كبول ما يؤكل لحمه) ومنه الفرس، ... (جازت الصلاة معه ما لم يبلغ ربع) جميع (الثوب) ... وقيل: ربع الموضع الذي أصابه كالذيل والكم والدخريص، إن كان المصاب ثوبا. وربع العضو المصاب كاليد والرجل، إن كان بدناً وصححه في التحفة والمحيط والمجتبى والسراج، وفي الحقائق: وعليه الفتوى". (ص؛68، فصل فی النجاسۃ، ط: قدیمی) فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144107200312

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں