بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 رمضان 1445ھ 28 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

نامحرم سے علاج کا حکم


سوال

اکثر علاج کے حوالے سے خواتین کے احکامات کا تذکرہ ہوتا ہے کہ کن حالات میں مرد ڈاکٹر سے علاج کروایا جا سکتا ہے؟  ترجیح مسلمان عورت ڈاکٹر،  پھر غیر مسلم عورت، اور اگر کوئی موجود نہ ہو تو مسلمان مرد ڈاکٹر . مسلمان مرد ڈاکٹر کے لیے کیا اَحکامات ہیں؟ آج کل خواتین کے اَمراض کی بہت سی ڈاکٹر موجود ہیں، ان حالات میں مرد کا خواتین کے امراض کا اسپیشلسٹ بننا کس حد تک درست ہے؟  اکثر دیکھا گیا ہے کہ باشرع مرد ڈاکٹر خواتین کے امراض جیسے زچگی ولادت اور بریسٹ کینسر جسے امراض کا علاج کر رہے ہیں، مستند خواتین ڈاکٹرز کی موجودگی میں ان کا ان اَمراض کا علاج کرنا کیسا ہے؟ جتنا ضروری ہے اتنا ستر کھولیں، نظریں نیچی رکھیں. ان سہولتوں کو استعمال کرنے کی نوبت آنی ہی نہیں چاہیے، سوائے چھوٹے شہر یا قصبے میں جہاں خواتین ڈاکٹر موجود نہ ہوں. کینسر کا مرد ڈاکٹر کیوں خواتین کے بریسٹ کینسر کا علاج شروع کرتا ہے، جب کہ اسے پتا ہے،  اس کے آس پاس مستند خواتین ڈاکٹر موجود ہیں. کیوں خواتین کا معائنہ  کرنے کا پوچھتا ہے جب کہ اس کی ٹیم میں دو خواتین ڈاکٹر موجود ہیں. وہ مریض کے بریسٹ کا جائزہ لے کر مرد ڈاکٹر کو رپورٹ دے سکتی ہیں؛ کیوں مرد ڈاکٹر شریعت کی حدود سے ناجائز فائدہ اٹھاتے ہیں. آج کل بڑے شہروں میں تقریباً ہر اسپتال میں خواتین کا عملہ موجود ہوتا ہے. اول تو ضرورت پڑنی ہی نہیں چاہیے. کیا خوفِ خدا رکھنے والے مرد ڈاکٹر کو خواتین مریض کا علاج کرنا چاہیے؟ بعض خواتین پردہ دار ہوتی ہیں،  لیکن اپنے مرض سے اتنی خوفزدہ ہوتی ہیں کہ وہ جسمانی معائنہ لازمی جانتے ہوئے کروا لیتی ہیں،  کینسر جیسے مرض میں مبتلا خواتین اکثر اس کا چرچا نہیں چاہتیں۔

جواب

 خواتین کے لیے نامحرم کے سامنے علاج کی غرض سے متاثرہ بدن کھولنے کی ضرورت کی بنیاد پر ضرورت ہی کے بقدر گنجائش ہے،  لیکن  جب اسی فیلڈ کی ڈاکٹرعورت موجود ہو تو نامحرم مرد ڈاکٹر کے سامنے بدن کھولنا، آپریشن  کرانا اورڈاکٹر کے لیے  کرنا دونوں جائز نہیں۔  مرد ڈاکٹر کو چاہیے کہ وہ کسی عورت ڈاکٹر کی جانب راہ نمائی کردے۔  اور اگر کوئی عورت اس فیلڈ کی نہ ملے تو وہ علاج مرد ڈاکٹر سے کرانا بھی جائز ہے۔ جب اس مقصد کے لیے خواتین موجود ہوں تو مردووں کو اس فیلڈ کی تعلیم کی حاجت نہیں۔

قواعد الفقه:

"إذا تعارض مفسدتان روعي أعظمهما ضرراً بارتکاب أخفهما".  (ص/۵۶ ، فقه النوازل :۴/۲۱۴ ، أحکام الجراحة)

الفتاوی الهندیة:

"امرأة أصابتها قرحة في موضع لایحل للرجل أن ینظر إلیه، لایحل أن ینظر إلیهما، لکن تعلم امرأة تداویها، فإن لم یجدوا امرأة تداویها ولا امرأة تتعلم ذلك إذا علمت، وخیف علیها البلاء والوجع أو الهلاك، فإنه یستر منها کل شيء إلا موضع تلك القرحة، ثم یداویها الرجل ویغض بصره ما استطاع إلا عن ذلك الموضع، ولا فرق في هذا بین ذوات المحارم وغیرهنّ، لأن النظر إلی العورة لایحل بسبب المحرمیة". (۵/۳۳۰ ، کتاب الکراهية، الباب الثامن فیما یحل للرجل النظر الخ)
رد المحتار :

"إذا کان المرض في سائر بدنها غیر الفرج یجوز النظر إلیه عند الدواء؛ لأنه موضع ضرورة، وإن کان في موضع الفرج، فینبغي أن یعلم امرأة تداویها، فإن لم توجد وخافوا علیها أن تهلك أو یصیبها وجع لاتحتمله یستروا منها کل شيء إلا موضع العلة، ثم یداویها الرجل، ویغضّ بصره ما استطاع إلا عن موضع العلة، ثم یداویها الرجل ویغضّ بصره ما استطاع إلا عن موضع الجرح". (۹/۴۵۳ ، الحظر والإباحة ، فصل في النظر والمسّ) فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144104200122

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں