بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

11 شوال 1445ھ 20 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

ناخن کاٹنے کا طریقہ کیا ہے ؟


سوال

ناخن کاٹنے کا سنت طریقہ کیا ہے؟

جواب

ہاتھوں اور پیروں کے ناخن کاٹنے کی ترتیب اور  طریقہ سے متعلق کوئی بھی صحیح روایت آپ ﷺ سے ثابت نہیں ہے، لہذا کسی بھی طریقہ سے ناخن کاٹ سکتے ہیں، البتہ احادیث میں آتا ہے کہ آپ ﷺ دائیں طرف سے ابتدا کرنے کو پسند کرتے تھے، اس لیے بعض فقہاء واکا برین نے ناخن کاٹنے کی یہ  ترتیب نقل کی  ہےجسے سلف صالحین کے پسندیدہ ہونے کی وجہ سے "مستحب"  بمعنی  "ماأحبه السلف"  کہہ سکتے ہیں:

” ابتدا دائیں ہاتھ کی شہادت کی انگلی سے کرکے ترتیب وار چھنگلیا (چھوٹی انگلی) کاٹے جائیں، اور پھر بائیں ہاتھ کی چھنگلیا (چھوٹی انگلی) سے شروع کرکے ترتیب وار انگوٹھے تک کاٹے جائیں، اور پھر آخر میں دائیں ہاتھ کے انگوٹھے  کا ناخن کاٹ لیا جائے۔ اور پاؤں کی انگلیوں میں دائیں پاؤں کی چھنگلیا (چھوٹی انگلی) سے شروع کرکے ترتیب وار بائیں پاؤں کی چھنگلیا تک کاٹے جائیں“۔

صلاۃ مسعودی میں ہے کہ ہاتھوں کے ناخن کاٹنے میں یہ ترتیب (جو مذکور ہوئی) اس وجہ سے ہے؛ تاکہ ابتدا اور انتہا دونوں دائیں ہاتھ پر ہو۔

البتہ علامہ نووی رحمہ اللہ نے لکھا ہے کہ پہلے دائیں ہاتھ کے مکمل ناخن  کاٹنے چاہییں، یعنی شہادت کی انگلی سے شروع کرکے چھوٹی انگلی تک اور پھر اسی ہاتھ کے انگوٹھے کا ناخن کاٹ لے، اور  پھر بائیں ہاتھ کے مکمل ناخن اسی طرح کاٹے جائیں۔ (مستفاد از ہدایۃ النور فی ما یتعلق بالاظفار والشعور )

لہذا مذکورہ دونوں طریقوں میں سے کوئی بھی اختیار کرلیا جائے، یہ زیادہ بہتر ہے۔

فی الدر المختار:

"وفي شرح الغزاویة: روي أنه صلی اللّٰة علیه وسلم بدأ بمسبحته الیمنی إلی الخنصر، ثم بخنصر الیسری إلی الإبهام، وختم بإبهام الیمنی. و ذکر له الغزالي في الإحیاء وجهاً وجیهاً ... قلتُ: وفي المواهب اللدنیة: قال الحافظ ابن حجر: إنه یستحب کیفما احتاج إلیه، ولم یثبت في کیفیته شيء، ولا في تعیین یوم له عن النبي صلی اللّٰه علیه وسلم".

قال ابن عابدین:

"(قوله: قلتُ الخ) وکذا قال السیوطي، وقد أنکر الإمام ابن دقیق العید جمیع هذه الأبیات، وقال: لا تعتبر هیئة مخصوصة، وهذا لا أصل له في الشریعة، ولایجوز اعتقاد استحبابه؛ لأن الاستحباب حکم شرعي لا بد له من دلیل". (الدر المختار مع رد المحتار: ۶/۴۰۶، کتاب الحظر والإباحة، فصل في البیع، ط: دار الفکر، بیروت)

"قال النووي: ویستحب أن یبدأ بالید الیمنی، ثم الیسری، ثم الرجل الیمنی، ثم الیسری. قال الغزالی في الإحیاء: یبدأ بمسبحة الیمنی، ثم الوسطی، ثم البنصر، ثم الخنصر، ثم خنصر الیسری إلی إبهام الیمنی، وذکر فیه حدیثاً وکلاماً لا أوثر ذکره، والمقصود أن الذي ذکره الغزالي لابأس به إلا في تاخیر إبهام الیمنی، فلا یقبل قوله فیه؛ بل یقدم الیمنی بکمالها، ثم یشرع في الیسری، وأما الحدیث الذي ذکره، فباطل لا أصل له". (المجموع شرح المهذب: ۱/۲۸۳، ط: دار الفکر، بیروت)فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144007200243

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں