بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 رمضان 1445ھ 28 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

ناحق مال کھا کر حق داروں کے واپس دینے کے بجائے اللہ کے راستہ میں خرچ کرنا


سوال

اگر کوئی  شخص حق تلفی کرے اور حق والے کو حق دے نا، لیکن اپنا مال اللہ تعالی کے راستے میں خرچ کرتا رہے . کیا اس کو پہلے حق والے کو حق دینا لازم ہے؟ اور کیا اس کو ثواب ملے گا جو اس نے فی سبیل اللہ خرچ کیا؟  اور حق تلف کیے ہوئے مال اس کے ایک روپیے کے بدلے آخرت میں کتنی نیکیوں کا خسارا ہو گا؟

جواب

ناحق کسی کا مال کھانا ناجائز اور حرام ہے، ناحق مال کھانے والے پر  قرآن وحدیث میں بہت سخت وعیدات وارد ہوئی ہیں،  ایسے لوگ اپنے پیٹ میں آگ بھر رہے ہیں،  بلکہ بعض کتبِ فقہ میں منقول ہے کہ  ناحق مال کھانے والے سے ایک دانق (جو درہم کا چھٹا حصہ ہوتا ہے) کے  بدلے میں اس کی سات سو مقبول  نمازیں،حق دار کو دے دی جائیں گی، ظلم کوئی معمولی چیز نہیں ہے، ساری عبادتیں اس وقت ناکافی ہیں جب تک ظلم سے برات نہ ہو، ایک حدیثِ مبارک میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے صحابہ رضوان اللہ علیہم سے دریافت کیا کہ: ”تم مفلس کس کو سمجھتے ہو؟ صحابہ رضوان اللہ علیہم نے عرض کیا کہ مفلس وہ ہے جس کے پاس درہم اور دینار نہ ہوں،اور مال واسبا ب نہ ہوں،تو آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا: ملفس وہ ہے جو قیامت کے دن آئے اوراس نے نمازیں بھی پڑھی ہوں، اور روزے بھی رکھے ہوں،  اور زکات بھی دیتا رہا ہو، مگر اس کے ساتھ اس نے کسی کو گالی دی تھی، کسی پر تہمت لگائی تھی، کسی کا ناحق مال کھایا تھا، ناحق خون بہایا تھا، کسی کو مارا تھا،  اب قیامت میں ایک اس کی یہ نیکی لے گیا اور دوسرا دوسری نیکی لے گیا،یہاں تک کہ اس کی نیکیاں ختم ہوگئیں،لیکن پھر بھی حق دار بچ گئے ، تو پھر باقی حق داروں کے گناہ  اس پر لاد دیے جائیں گے، یہاں تک کہ وہ گناہوں میں ڈوب کر جہنم میں پھینک دیا جائے گا، یہ ہے حقیقی مفلس“۔ لہذا جس کا مال ناحق لیا ہے اس کو واپس کرنا ضروری ہے، اگر وہ انتقال کرجائے تو اس کے ورثاء کو دینا لازم ہے، اسی کی ادائیگی کی اولاً فکر کرنی چاہیے۔ البتہ اگر کسی نے صاحبِ حق کا حق ادا کیے بغیر فی سبیل اللہ زکات دی یا صدقہ کیا تو شرعاً یہ نافذ ہوگا، گو  قیامت کے دن وہ ظلم کے بدلے صاحبِ حق کو ادا کرنا پڑے گا۔

صحيح مسلم (4/ 1997):
"عن أبي هريرة، أن رسول الله صلى الله عليه وسلم، قال: «أتدرون ما المفلس؟» قالوا: المفلس فينا من لا درهم له ولا متاع، فقال: «إن المفلس من أمتي يأتي يوم القيامة بصلاة، وصيام، وزكاة، ويأتي قد شتم هذا، وقذف هذا، وأكل مال هذا، وسفك دم هذا، وضرب هذا، فيعطى هذا من حسناته، وهذا من حسناته، فإن فنيت حسناته قبل أن يقضى ما عليه أخذ من خطاياهم فطرحت عليه، ثم طرح في النار»".
الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (1/ 438):
"الصلاة لإرضاء الخصوم لاتفيد، بل يصلي لله، فإن لم يعف خصمه أخذ من حسناته جاء: «أنه يؤخذ لدانق ثواب سبعمائة صلاة بالجماعة».
(قوله: جاء) أي في بعض الكتب، أشباه عن البزازية، ولعل المراد بها الكتب السماوية أو يكون ذلك حديثاً نقله العلماء في كتبهم: والدانق بفتح النون وكسرها: سدس الدرهم، وهو قيراطان، والقيراط خمس شعيرات، ويجمع على دوانق ودوانيق؛ كذا في الأخستري حموي (قوله: ثواب سبعمائة صلاة بالجماعة) أي من الفرائض لأن الجماعة فيها: والذي في المواهب عن القشيري سبعمائة صلاة مقبولة ولم يقيد بالجماعة. قال شارح المواهب: ما حاصله هذا لاينافي أن الله تعالى يعفو عن الظالم ويدخله الجنة برحمته ط ملخصاً". 
 فقط واللہ اعلم
 


فتوی نمبر : 144004201174

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں