بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 رمضان 1445ھ 29 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

میراث کی غیر شرعی تقسیم


سوال

زید کے والد نے اپنے انتقال پر چالیس بیگہ زمین چھوڑی ہے۔ مرحوم کے چار بیٹے ، چاربیٹیاں اور ایک بیوہ ہے۔ دستورِ ہند کے مطابق آٹھ آٹھ بیگہ ہم چار بھائیوں اور ماں کے درمیان تقسیم کردیے گئے، بہنوں کو کچھ نہیں دیا گیا۔ ماں نے اپنا حصہ اپنے چار بیٹوں کو ہی دے دیا۔ اب دو بھائی کہہ رہے ہیں کہ  تقسیم شریعت کے رو سے صحیح نہیں  ہوئی؛ کیوں کہ بہنوں کو  حصہ نہیں ملا۔اب دو بھائی بہنوں کو  حصے دینے  پر راضی ہیں اور دو راضی نہیں ہیں ، جو دو بھائی اپنی چار بہنوں کو حصہ دیناچاہتے  ہیں  وہ اپنے حصے کی زمین کی آمدنی سے اور بینک سے کچھ قرضہ لے کر دو بہنوں، ایک بھائی اورایک حصہ نادینے والے بھائی کی شادی بھی کر چکے ہیں،شادی کے خرچہ کاتمام قرض انہوں نے اپنے ذمہ لے لیا تھا۔

1۔صورتِ مذکورہ میں  دوبھائی اپنی چار بہنوں کو کتنا کتنا حصہ دیں گے ؟

2۔شادی پرجو خرچہ ہوا اس کی حیثیت  کیا ہو گی؟

3۔جو زمین حصہ میں آئی ہوئی ہے اس کی آمدنی جائز ہے؟

4۔ماں کے دیے ہوئے حصے کا  چاروں بیٹوں کا لیناکیسا ہے؟

جواب

صورتِ مسئولہ میں ذکر کردہ تقسیم غیر شرعی ہے، لہٰذا  ورثاء کو چاہیے کہ وہ مکمل ترکہ بشمول اب تک کے نفع  کو واپس  کر کے ازسرِ نو شرعی طریقہ سے تقسیم کریں، جس کا طریقہ یہ ہے کہ کل ترکہ سے حقوقِ متقدمہ یعنی تجہیز و تکفین کا خرچہ نکالنے کے بعد ،  اگر مرحوم کے ذمہ کوئی قرض ہو تو اس کو باقی ترکہ سے ادا کرنے کے بعد،  اگر مرحوم نے شرعاً کوئی جائز وصیت کی ہو تو اس کو باقی ترکہ کے ایک تہائی سے پورا کرنے کے بعد  باقی پورے ترکہ (خواہ منقولی ہو یا غیر منقولی ) کو  96 حصوں میں تقسیم کرکے بیوہ کو 12  حصے ، ہر بیٹے کو 14حصے ، ہر بیٹی کو 7 حصے ملیں  گے۔

1۔صورتِ مسئولہ میں  دو بھائیوں کا بہنوں کو حصہ دینے کاطریقہ یہ ہے کہ اوپر ذکر کردہ طریقۂ تقسیم کے مطابق مذکورہ دو بھائیوں کے پاس جتنا حصہ زیادہ بن رہا ہے ،وہ تمام  بہنوں میں شرعی   تناسب سے تقسیم کردیں ۔

اور باقی دو بھائیوں کو چاہیے کہ وہ بھی زائد حصہ تمام بہنوں میں شرعی  تناسب سے تقسیم کر دیں ورنہ آخرت میں سخت عذاب ہوگا۔

2۔ دو بھائیوں نے  بہنوں  اور بھائیوں کی شادی پر خرچہ اگر بغیر کسی معاہدے کے کیا تھا (جیسا کہ عام طور پر ہوتا ہے)   تو یہ ان کی طرف سے تبرع و احسان ہے، جس کا وہ کسی سے مطالبہ نہیں کرسکتے۔لیکن اگر یہ طے کیا ہو کہ یہ تمہارے حصۂ میراث سے خرچ کیا جارہا ہے تو طےشدہ بات کے مطابق معاملہ حل کیا جائے گا۔

۳۔ مرحوم کے انتقال کے بعد ترکہ  میں سب ورثاء شرکتِ ملک کے طور پر شریک ہوگئے تھے ، لہذا تقسیم سے پہلے اس سے حاصل ہونے والی آمدنی بھی ترکہ ہے، جو سب ورثاء کا حق ہے، اس لیے اب تک کی آمدنی تمام ورثاء میں ان کے شرعی  حصوں کے  تناسب سے تقسیم ہوگی۔

۴۔ والدہ نے اگر میراث میں سے اپنا حصہ لے کر بیٹوں کو ہبہ کردیا تو یہ ہبہ درست ہوگیا، تاہم صرف بیٹوں کو ھبہ (گفٹ ) کرنا اور بیٹیوں کو محروم کرنا شرعاً درست نہ تھا ،  اس لیے بیٹوں کوچاہیے کہ وہ بہنوں کو بھی کچھ حصہ دے دیں، اور اگر والدہ نے اپنی میراث میں سے اپنا حصہ لیا ہی نہیں تھا، بلکہ اس سے بیٹوں کے حق میں دست بردار ہوگئی تھی تو  ترکہ کی تقسیم سے پہلے یہ دست برادری درست نہیں تھی، بلکہ وہ حصہ بدستور والدہ کا رہے گا۔ فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144003200091

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں