بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 رمضان 1445ھ 28 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

بیوہ کو میراث نہ دینا


سوال

آپ سے ایک مسئلے کا حل درکار ہے, میری ایک پھوپھی کی شادی ہوئی، ان کے شوہر کی میری پھوپھی سے دوسری شادی تھی، ان کی پہلی بیوی سے 4 ، 5 بچے ہیں اور ان سب کی شادیاں ہوچکی ہیں اور سب کا کاروبار ہے۔اور پھوپھی کے شوہر کا اپنا مال کوئی 2 کروڑ تک ہے۔اور اللہ نے میری پھوپھی کو کوئی اولاد نہیں دی۔میری پھوپھی نے 17 سال تک اپنے شوہر کی خدمت کی اور ان کے شوہر کی طبعیت خراب ہوگئی اور شوہر نے میری پھوپھی سے کہا کہ میرے مال میں آپ کا کو ئی حصہ نہیں اور آپ میرے مرنے کے بعد اپنے لیے کوئی بندوبست کرلیں ۔اور ان کے انتقال ہو گیا تو آپ سے اس مسئلے کا جواب درکار ہے ک ان کے شوہر کے مال میں ان کا حصہ شریعت کے اعتبار سے کیا ہے؟

برائے مہربانی راہ نمائی فرما دیجیے!

جواب

 آپ کی پھوپھی آپ کے پھوپھا کی بیوی تھیں، آپ کے پھوپھا کا یہ کہہ دینا کہ "میرے مال میں آپ کا کوئی حصہ نہیں"،  اس سے  کوئی فرق نہیں پڑتا ؛ اس لیے کہ  میراث کا حق آدمی کی وفات کے بعد  ملتا ہے اور یہ اللہ تعالی کی جانب سے طے کردہ ہے۔

آپ کے پھوپھا کے کل ترکے میں سے کفن دفن کے اخراجات ، قرضہ جات کی ادائیگی  اور اگر کوئی جائز وصیت کی ہو تو ایک تہائی ترکہ میں سے اس کی ادائیگی کے بعد  آٹھویں حصہ کی مالکہ  آپ کی پھوپھی ہیں۔ یہ ان کا حق ہے دیگر ورثاء پر اس کی ادائیگی لازم ہے۔

﴿ فَإِن كَانَ لَكُمْ وَلَدٌۭ فَلَهُنَّ ٱلثُّمُنُ مِمَّا تَرَكْتُم ۚ مِّنۢ بَعْدِ وَصِيَّةٍۢ تُوصُونَ بِهَآ أَوْ دَيْنٍۢ ۗ ﴾ [النساء:12]

ترجمہ: پھر اگر تمہاری اولاد ہو تو تمہاری بیواؤں کو آٹھواں حصہ ملے گا تمہارے ترکے میں سے، اس وصیت کو پورا کرنے کے بعد جو تم نے وصیت کی ہو، یا قرض ذمے میں ہو۔ فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 143909202330

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں