بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 رمضان 1445ھ 28 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

میراث،مناسخہ،والدہ،بہن،چچا،پھوپھی


سوال

(1) ایک آدمی فوت ہوجاتا ہے اور اُس کے پیچھے اس کی اولاد میں ایک بیٹا اور ایک بیٹی اور بیوہ موجود ہیں، اِس کی میراث کس طرح تقسیم ہوگی؟اور بیوی کامہر باقی ہے۔

(2) اسی آدمی کے فوت ہونے کے پانچ سال بعد اُس کا بیٹا بھی فوت ہوجاتاہے، اس بچے کی میراث کا کون کون حق دار ہے جب کہ اِس کی والدہ -بہن -3چچے -2پھوپیاں موجود ہیں؟

جواب

صورتِ مسئولہ میں مرحوم کے ترکہ کی تقسیم کا شرعی طریقہ کار یہ ہے کہ سب سے پہلے مرحوم کی کل جائیداد منقولہ و غیر منقولہ میں سے مرحوم کے حقوقِ متقدمہ یعنی تجہیز و تکفین کے اخراجات نکالنے اور اگر مرحوم کے ذمہ کوئی قرضہ ہو (مثلاً بیوی کا مہر وغیرہ) تو قرضہ کی ادائیگی کے بعد، اور اگر مرحوم نے کوئی جائز وصیت کی ہو تو ایک تہائی مال میں سے وصیت کو نافذ کرنے کے بعد باقی کل جائیداد منقولہ و غیر منقولہ کو ۲۱۶  حصوں میں تقسیم کر کے اس میں سے ۶۹ حصے مرحوم کی بیوہ کو، ۱۲۶ حصے مرحوم کی بیٹی کو اور ۹ حصے مرحوم کے ہر بھائی ( یعنی مرحوم بیٹے کے ہر ایک چچا ) کو ملیں گے۔ مرحوم کی بہنوں (یعنی مرحوم بیٹے کی پھوپھیوں ) کو کچھ نہیں ملے گا۔

فیصد کے اعتبار سے 100 % میں سے   31.94%  مرحوم کی بیوہ کو،58.33%  مرحوم کی بیٹی کو اور  3.24%  مرحوم کے ہر بھائی ( یعنی مرحوم بیٹے کے ہر ایک چچا ) کو ملیں گے۔

نوٹ: یہ جواب اس صورت میں ہے کہ مرحوم بیٹے کی بیوی، بچے نہ ہوں۔ اگر ہوں تو جواب مختلف ہوگا۔

الفتاوى الهندية (6/ 449،450،451)

''والثالثة : الأم، ولها ثلاثة أحوال: السدس مع الولد وولد الابن أو اثنين من الإخوة والأخوات من أي جهة كانوا، والثلث عند عدم هؤلاء وثلث ما يبقى بعد فرض الزوج والزوجة ۔۔۔ الخامسة : الأخوات لأب وأم، للواحدة النصف، وللثنتين فصاعداً الثلثان، كذا في خزانة المفتين۔ ومع الأخ لأب وأم للذكر مثل حظ الأنثيين، ولهن الباقي مع البنات أومع بنات الابن، كذا في الكافي ۔۔۔ وباقي العصبات ينفرد بالميراث ذكورهم دون أخواتهم وهم أربعة أيضاً: العم وابن العم وابن الأخ وابن المعتق، كذا في خزانة المفتين''.فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 143909201288

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں