بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 رمضان 1445ھ 29 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

میراث، شوہر، تین علاتی بھائی اور ایک علاتی بہن


سوال

میری ہمشیرہ(جو میرے مرحوم والد کی پہلی زوجہ مرحومہ کی اکلوتی بیٹی تھیں) کا انتقال ہو گیا ہے۔ ہمشیرہ کے شوہر زندہ ہیں، جب کہ ہمشیرہ کی کوئی اولاد نہیں ہے۔ ہم تین بھائی اور دو بہنیں ہیں۔ مرحومہ بہن کا ترکہ کس طرح تقسیم ہو گا؟ اگر کُل ترکہ کو ایک لاکھ روپیہ تصور کیا جائے تو تقسیم کس طرح عمل میں لائی جائے گی؟

جواب

آپ کی مرحومہ  علاتی (باپ شریک ) بہن کے ترکہ کی تقسیم کا شرعی طریقہ کار یہ ہے کہ سب سے پہلے مرحومہ کی کل جائے داد  منقولہ و غیر منقولہ میں سے اگر مرحومہ کے ذمہ کوئی قرضہ ہو تو قرضہ کی ادائیگی کے بعد، اور اگر مرحومہ نے کوئی جائز وصیت کی ہو تو ایک تہائی مال میں سے وصیت نافذ کرنے کے بعد باقی کل جائے داد  منقولہ و غیر منقولہ کو  ۱۴ حصوں میں تقسیم کر کے اس میں سے سات(۷) حصے مرحومہ کے شوہر کو ، دو ، دو حصے مرحومہ کے ہر علاتی بھائی کو اور ایک حصہ مرحومہ کی علاتی بہن کو ملے گا۔

مثلاً ایک لاکھ روپے میں سے پچاس ہزار (۵۰،۰۰۰ ) روپے مرحومہ کے شوہر کو،   چودہ ہزار دو سو پچیاسی (۱۴،۲۸۵ ) روپے مرحومہ کے ہر علاتی بھائی کو اور  سات ہزار ایک سو بیالیس (۷،۱۴۲ ) روپے مرحومہ کی علاتی بہن کو ملیں گے۔

یہ جواب اس صورت میں ہے جب کہ سوال میں مذکور جملہ ’’ہم تین بھائی اور دو بہنیں ہیں‘‘ سے مراد یہ ہو کہ مرحومہ بہن کو ملا کر دو بہنیں ہیں، یعنی مرحومہ کے انتقال کے بعد اب صرف ایک بہن زندہ ہو جو کہ مرحومہ کی علاتی بہن ہو۔

لیکن اگر اس جملہ ’’ہم تین بھائی اور دو بہنیں ہیں‘‘ سے مراد یہ ہو کہ مرحومہ بہن کے علاوہ دو بہنیں ہیں تو اس صورت میں طریقہ تقسیم کچھ مختلف ہوگا، یعنی قرضہ جات کی ادائیگی اور وصیت کے نافذ کرنے کے بعد باقی ترکہ کو  ۱۶ حصوں میں تقسیم کر کے اس میں سے ۸ حصے مرحومہ کے شوہر کو، دو، دو حصے مرحومہ کے ہر بھائی کو اور ایک، ایک حصہ مرحومہ کی ہر بہن کو ملے گا۔یعنی ایک لاکھ روپے میں سے پچاس ہزار روپے شوہر کو ، ۱۲۵۰۰ روپے مرحومہ کے ہر بھائی کو اور ۶۲۵۰ روپے مرحومہ کی ہر بہن کو ملیں گے۔

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (2/ 206):

"(واختلف في الزوج والفتوى على وجوب كفنها عليه) عند الثاني (وإن تركت مالاً) خانية. ورجحه في البحر بأنه الظاهر لأنه ككسوتها.

مطلب في كفن الزوجة على الزوج

(قوله: واختلف في الزوج) أي في وجوب كفن زوجته عليه (قوله: عند الثاني) أي أبي يوسف وأما عند محمد فلايلزمه؛ لانقطاع الزوجية بالموت، وفي البحر عن المجتبى: أنه لا رواية عن أبي حنيفة، لكن ذكر في شرح المنية عن شرح السراجية لمصنفها: أن قول أبي حنيفة كقول أبي يوسف (قوله: وإن تركت مالاً إلخ) اعلم أنه اختلفت العبارات في تحرير قول أبي يوسف، ففي الخانية والخلاصة والظهيرية: أنه يلزمه كفنها، وإن تركت مالاً، وعليه الفتوى، وفي المحيط والتجنيس والواقعات وشرح المجمع لمصنفه: إذا لم يكن لها مال فكفنها على الزوج، وعليه الفتوى، وفي شرح المجمع لمصنفه إذا ماتت ولا مال لها فعلى الزوج الموسر اهـ ومثله في الأحكام عن المبتغى بزيادة وعليه الفتوى ومقتضاه أنه لو معسراً لايلزمه اتفاقاً وفي الأحكام أيضاً عن العيون كفنها في مالها إن كان وإلا فعلى الزوج ولو معسراً ففي بيت المال. اهـ. والذي اختاره في البحر لزومه عليه موسراً أو لا لها مال أو لا لأنه ككسوتها وهي واجبة عليه مطلقا قال: وصححه في نفقات الولوالجية. اهـ.

قلت: وعبارتها إذا ماتت المرأة، ولا مال لها قال أبو يوسف: يجبر الزوج على كفنها، والأصل فيه أن من يجبر على نفقته في حياته يجبر عليها بعد موته، وقال محمد: لا يجبر الزوج والصحيح الأول اهـ فليتأمل. [تنبيه]

قال في الحلية: ينبغي أن يكون محل الخلاف ما إذا لم يقم بها مانع الوجوب عليه حالة الموت من نشوزها أو صغرها ونحو ذلك اهـ وهو وجيه لأنه إذا اعتبر لزوم الكفن بلزوم النفقة سقط بما يسقطها.

ثم اعلم أن الواجب عليه تكفينها وتجهيزها الشرعيان من كفن السنة أو الكفاية وحنوط وأجرة غسل وحمل ودفن دون ما ابتدع في زماننا من مهللين وقراء ومغنين وطعام ثلاثة أيام ونحو ذلك، ومن فعل ذلك بدون رضا بقية الورثة البالغين يضمنه في ماله".فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144004201179

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں