بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

15 شوال 1445ھ 24 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

مہر کی ادائیگی کے بعد بیوی کی طرف سے دوبارہ مہر کا مطالبہ


سوال

میں سعودی عرب میں ہوتا ہوں،  میں نے فون پر اپنی بیوی کو دوسری طلاق دی ہے ،  جوکہ اس سے پہلے میرے پاس سعودی عرب میں رہتی تھی اور اس کو یہاں ایک طلاق دے چکا ہوں جو کہ مجموعی اب ٹوٹل دو ہو چکی ہیں۔ اور یہ دونوں طلاق میں نے اپنی بیوی کے مطالبے پر اس کو دی ہیں۔اور تیسری کا بھی اب مطالبہ کر رہی ہے۔لیکن اس شرط پر کہ اگر تم مجھے اپنے گھر میں رکھو اور میرے سارے خرچے اٹھاؤ اور مجھے خوش رکھو اور میرے سارے حق ادا کرو تو مجھے طلاق نہیں چاہیے۔لیکن میں خود اس سے ناراض ہوں؛ کیوں کہ جو مہربانیاں پہلے میں نے اس پر کی ہیں وہ ان سب سے انکاری ہے۔اور بہت ناشکری کرتی ہے؛  اس لیے میں بھی اس کو طلاق دینا چاہتا ہوں، لیکن میں نے حق مہر جو تین دفعہ تو اس نے معاف بھی کر دیا، لیکن باوجود اس کے میں نے اس کو مہر دے دیا ہے۔لیکن وہ مہر کے حق ادا ہونے سے بھی انکاری ہے اور بول رہی ہے کہ مجھے مہر چاہیے اور طلاق کا مطالبہ میں نہیں کر رہی،  مجھے خوش رکھو  یا مجھے طلاق دو تمہاری مرضی۔ اب میں اس کو تیسری طلاق دینا چاہتا ہوں جو کہ اس سے پہلے دوسری طلاق کے دو مہینے ہو چکے ہیں، لیکن کیا مجھے اس کو حق مہر ادا کرنا چاہیے باوجود یہ کہ یہ ادا ہو چکا ہے؟

جواب

  1. واضح رہے کہ شوہر ہونے کے ناطے مرد پر لازم ہے کہ وہ اپنی بیوی کی بنیادی ضروریات (مثلاً: نان، نفقہ، رہائش یعنی ایک ایسا کمرہ جس میں میاں بیوی کا سامان ہو اور بلا اجازت کسی کو اس کمرے میں داخل ہونے کی اجازت نہ ہو اور اسی طرح دیگر شرعی حقوق، علاج معالجہ وغیرہ) کا لحاظ رکھے، یہ شوہر کی شرعی ذمہ داری ہے۔

صورتِ مسئولہ میں اگر سائل سے بیوی کے بنیادی حقوق کی ادائیگی میں کوتاہی ہورہی ہے تو بیوی کے مذکورہ مطالبات بجا اور درست ہیں، سائل کو محض بیوی سے ناراضی اور اس کی ناشکری کی بنیاد پر طلاق جیسی مبغوض ترین اور ناپسندیدہ چیز کا ارتکاب نہیں کرنا چاہیے، بلکہ میاں بیوی کسی طرح آپس میں شکوے شکایات کو دور کرکے دوبارہ شرعی طریقے سے ایک ساتھ رہنے کی کوشش کریں، ورنہ خاندان کے بڑوں کے سامنے بات رکھیں؛ تاکہ وہ لوگ ان دونوں کی شکایات سن کر میاں بیوی کو سمجھانے اور ان کے درمیان صلح کرانے کی کوشش کریں، لیکن اس کے باوجود بھی اگر نباہ  کی کوئی صورت باقی نہ رہے تو پھر سائل کے لیے اپنی بیوی کو طلاق دینے کی اجازت ہے۔

2- صورتِ مسئولہ میں سائل اگر اپنے دعویٰ (کہ میں نے حق مہر ادا کردیا ہے) میں سچا ہے اور اس نے واقعتاً بیوی کو مہر ادا کردیا ہے تو دوبارہ اس پر مہر ادا کرنا لازم نہیں ہے، ورنہ اللہ سے ڈر کر بیوی کو مہر ادا کردینا چاہیے، نہیں کرے گا تو گناہ گار ہوگا، اس لیے کہ نکاح کے بعد مہر عورت کا حق ہوتاہے جو شوہر کے ذمہ شرعاً واجب الادا ہوتا ہے، اگر شوہر مہر کی ادائیگی سے انکار کرے یا اس کو ناحق طور پر کھالے تو سخت گناہ گار ہوگا؛ کیوں کہ کسی دوسرے کے مال کو ناجائز طریقے سے کھانا اور اس پر ناحق قبضہ کرنا شرعاً حرام ہے اور اس کے متعلق قرآن وحدیث میں بڑی سخت وعیدیں وارد ہوئی ہیں، حدیث شریف میں آتا ہے کہ ’’حرام مال سے پرورش پانے والا بدن جنت میں داخل نہیں ہوگا‘‘، اسی طرح ایک دوسری حدیث میں ہے کہ ’’ جو شخص (کسی دوسرے کی) بالشت بھر زمین بھی ازراہِ ظلم لے گا تو قیامت کے دن سات زمینوں میں سے اتنی ہی زمین اس کے گلے میں بطور طوق ڈالی جائے گی‘‘۔ (مظاہر حق جدید ج3)

قرآنِ کریم میں ہے:

{وإن خفتم شقاق بينهما فابعثوا حكماً من أهله وحكما من أهلها إن يريدا إصلاحًا يوفق الله بينهما إن الله كان عليماً خبيراً} [النساء: 35]

حدیث شریف میں ہے:

"وعن ابن عمر أن النبي صلى الله عليه وسلم قال: «أبغض الحلال إلى الله الطلاق». رواه أبوداؤد". (2/978، ط: المكتب الإسلامي)

فتاوی شامی میں ہے:

"النفقة هي لغةً: ما ينفقه الإنسان على عياله. وشرعاً: (هي الطعام والكسوة والسكنى). وعرفاً هي: الطعام (ونفقة الغير تجب على الغير بأسباب ثلاثة: زوجية، وقرابة، وملك) بدأ بالأول لمناسبة ما مر أو؛ لأنها أصل الولد (فتجب للزوجة) بنكاح صحيح، فلو بأن فساده أو بطلانه رجع بما أخذتنه من النفقة، بحر (على زوجها)". (باب النفقة 3/604، ط: سعيد)

وفيه أيضًا:

"عرف المهر في العناية بأنه "اسم للمال الذي يجب في عقد النكاح على الزوج في مقابلة البضع إما بالتسمية أو بالعقد". (باب المهر 3/100، ط: سعيد)

قرآن کریم میں ہے:

{يا أيها الذين أمنوا لاتأكلوا أموالكم بينكم بالباطل إلا أن تكون تجارةً عن تراض منكم ولاتقتلوا أنفسكم إن الله كان بكم رحيماً ومن يفعل ذلك عدواناً وظلماً فسوف نصليه ناراً وكان ذلك على الله يسيرًا} [النساء:]

حدیث شریف میں ہے:

"عن أبي بكر رضي الله عنه أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: «لايدخل الجنة جسد غذي بالحرام». رواه البيهقي في شعب الإيمان".  (2/887، ط: المكتب الإسلامي) فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144012201044

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں