بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 رمضان 1445ھ 28 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

مہرِ مثل کا مطالبہ کرنا اور مہر مثل کب واجب ہوتا ہے؟


سوال

 مہر مثل (یعنی جو خاندان کی لڑکیوں کا مہر ہے) لڑکی والوں کا حق ہے؟ اگر وہ مہر مثل کا مطالبہ کریں تو لڑکے والوں کےلیے ضروری ہے کہ مہر مثل جتنا دیں؟ اگر لڑکی والوں کو مجبور کرکے مہر مثل سے کم پر راضی کرلیں تو ایسا کرنا شرعاً درست ہے؟

جواب

مہر کی زیادہ سے زیادہ کوئی مقدار متعین نہیں ہے، اور کم از کم مقدار  دس درہم ہے، جو آج کل کے رائج حساب سےدو تولہ پونے آٹھ ماشہ چاندی کے برابر ہے۔

 مہر ِ مثل عورت کا حق ہے، یعنی اس لڑکی کے باپ کے خاندان کی وہ لڑکیاں جو مال، جمال، دین، عمر، عقل، زمانہ، شہر، بکارت، ثیبہ وغیرہ  ہونے میں اس کے برابر ہوں، ان کا جتنا مہر  تھا اس کا بھی اتنا مہر  ہے، لیکن شریعت نے فریقین کو اختیار دیا ہے کہ باہمی رضامندی سے مہر مثل سے کم یا زیادہ مہر مقرر کرسکتے ہیں بشرط یہ کہ وہ دس درہم سے کم نہ ہو،اس کو  ”مہرِ مسمی“ کہتے ہیں اور نکاح کے وقت فریقین جو مہر باہمی رضامندی سے طے کریں اسی کی ادائیگی شوہر پر لازم ہوگی۔

لہذا صورتِ مسئولہ میں اگر نکاح کے وقت فریقین نے باہمی رضامندی سے کوئی مہر طے کرلیا ہو تو بعد میں مہر مثل کا مطالبہ درست نہیں ہے، اور اگر نکاح ہی مہر مثل پر ہوا ہو تو  شوہر کا بعد میں اس سے کم دینا یا زبردستی کرکے کم کرانا جائز نہیں ہے، یا اگر کوئی مہر نکاح کے وقت طے نہ ہوا  تو اس صورت میں شوہر کے لیے  مہر مثل ادا کرنا لازم ہوگا۔

باقی نکاح باہمی رضامندی کا معاملہ ہے، اگر نکاح سے پہلے لڑکی یا اس کے اولیاء مہر مثل کا مطالبہ کریں اور لڑکے والے قبول نہ کریں تو لڑکی والوں کو  یہ بھی حق ہے کہ وہ نکاح کے لیے رضامند نہ ہوں۔فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144007200399

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں