بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

16 شوال 1445ھ 25 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

مکہ میں رہتے ہوئےدوبارہ عمرہ کس طرح کیاجائے؟


سوال

 عمرہ پر جب کوئی شخص جاتا ہے تو ایک عمرہ کرنے کے بعد اگر دوسرا عمرہ کرنا چاہے تو اس کا کیا طریقہ ہوگا ؟ بعض لوگ کہتے ہیں: مسجدِ عائشہ سے احرام باندھ کر عمرہ کرنے کی کوئی اصل نہیں، بس ایک عمرہ کافی ہے ،بقیہ وقت حرم میں گزارے، لیکن بعض لوگ روز عمرہ کرتے ہیں مسجدِ عائشہ جاکر ، آپ راہ نمائی فرمائیں کہ کون سا طریقہ درست ہے؟

جواب

متعدد عمرے کرنا یا ایک عمرہ کرکے پھر حرم میں ہی رہتے ہوئے متعدد طواف کرنا دونوں جائزہیں۔ البتہ آفاقی شخص (یعنی جو میقات سے باہر رہنے والا ہو) کے لیے کثرتِ عمرہ افضل ہے ، اور مکی کے لیے کثرتِ طواف افضل ہے، اس لیے اگر زائر حلّ تک جانے اور واپس آنے کے کرایہ اور حلق وغیرہ کے اخراجات کا متحمل ہو تو اسے حسبِ استطاعت عمرے کرنے چاہییں، اور اگر گنجائش نہ ہو تو کثرت سے طواف کرنے چاہییں۔ واضح رہے کہ یہ حکم صرف افضلیت کے اعتبار سے ہے، لہٰذا اگر کوئی شخص گنجائش کے باوجود عمرے کثرت سے نہیں کرتا، بلکہ حرم میں رہ کر طواف کرتاہے تو اس میں کوئی کراہت نہیں ہوگی۔ اسی طرح اگر کسی اور ضرورت (مثلاً: سفر میں کوئی مریض یا ضعیف ساتھ ہو جس کی خدمت میں رہنا ضروری ہو) کی وجہ سے اضافی عمرے نہ کرسکے تو کوئی حرج نہیں ہے۔

 آفاقی شخص ایک عمرہ مکمل کرکے تمام ارکان سے فارغ ہونےکے بعد حدودِ حرم میں موجود ہو تو وہ مکی کے حکم میں ہوگا اور وہ 'حل 'میں (حدودِ حرم سے باہر اور میقات کے اندر) کسی بھی جگہ جاکر عمرہ کا احرام باندھ کر دوسرا عمرہ کرسکتا ہے، البتہ تنعیم (یعنی مسجد عائشہ) سے جاکر احرام باندھنا افضل اور بہتر ہے۔فتاوی شامی میں ہے:

'والمیقات لمن بمکة یعني من بداخل الحرم للحج الحرم وللعمرة الحل ؛ لیتحقق نوع سفر، والتنعیم أفضل'․ (درمختار) وفي الشامية: 'والمراد بالمکي من کان داخل الحرم سواء کان بمکة أولا، وسواء کان من أهلها أو لا'․ (شامی : ۳/۴۸۴)فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 143909200726

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں