بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

8 رمضان 1445ھ 19 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

مومن اور مسلم میں فرق


سوال

قرآن مجید میں مؤمنین اور مسلمین ہے تو مومن اور مسلم میں کیا فرق ہے?

جواب

لفظِ مؤمن ایمان سے مأخوذ ہے، اور لفظِ مسلم اسلام سے مأخوذ ہے، ایمان اور اسلام کی تعریفات اور ان دونوں کے درمیان فرق میں بہت تفصیلی کلام ہے، جس کا خلاصہ یہ ہے کہ ایمان کا تعلق باطن سے ہے اور اسلام کا تعلق ظاہر سے ہے،  یعنی ایمان عقائد ( مثلاً اللہ تعالی پر، رسولوں پر، فرشتوں پر، قیامت کے دن وغیرہ پر ایمان لانا) اور  قلبی صفات و اعمال(مثلاً  اخلاص، توکل، اللہ تعالیٰ کی محبت، خوف وغیرہ) کا نام ہے، جب کہ اسلام ظاہری اعمال (مثلاً زبان سے شہادتین کا اقرار، نماز، روزہ، زکاۃ، حج  اور دیگر مالی و بدنی عبادات) کا نام ہے۔

یعنی ایمان اور اسلام میں حقیقت میں فرق نہیں ہے، اعتباری فرق ہے،  رسول اللہ ﷺ جتنی تعلیمات لے کر آئے ہیں انہیں دل سے ماننا اور دل میں ان کی تصدیق کرنا ایمان ہے، اسی کا اظہار اور ان پر عمل اسلام ہے۔  بعض اکابر نے اسے یوں تعبیر کیا ہے کہ ایمان کا سفر باطن سے شروع ہوکر ظاہری اعمال پر مکمل ہوتاہے اور اسلام کا سفر ظاہر سے شروع ہوکر باطن پر منتہی ہوتا ہے۔ البتہ ایمان اور اسلام کے حامل ہونے کے اعتبار سے انسان میں فرق ہوسکتاہے کہ جو شخص ظاہر میں ایمان کا اقرار کرے لیکن دل میں ایمان نہ ہو، تو اسے مؤمن نہیں کہا جائے گا، لیکن ظاہری انقیاد کی وجہ سے اسے مسلم کہا جائے گا۔

اس فرق کا لحاظ رکھتے ہوئے قرآنِ مجید کی سورہ حجرات میں فرمایا گیا ہے کہ دیہاتی لوگ (آپﷺ سے) کہتے ہیں کہ ہم ایمان لائے۔ (گویا احسان جتلارہے ہیں کہ ہم تو بڑے جنگ جو تھے، لیکن بغیر لڑائی کے اسلام قبول کرلینا گویا ہمارا احسان ہے، اس لیے ہمیں آپ خیرات دیں) آپ (ﷺ) ان سے کہہ دیجیے: تم (ابھی تک) ایمان نہیں لائے (یعنی دل سے تصدیق نہیں کی، ورنہ کبھی رسول اللہ ﷺ سے ایسا طرزِ تخاطب اختیار نہ کرتے)، بلکہ یوں کہو کہ ہم نے ظاہری طور پر انقیاد قبول کیا ہے، اور ابھی تک ایمان تمہارے دلوں میں داخل نہیں ہوا ہے۔ (الحجرات:14)

سورہ حجرات کی ان آیات میں ظاہری فرماں برداری دکھانے والوں کے لیے اسلام کا لفظ اختیار کیا گیا ہے، اور ایمان کی نفی کردی گئی ہے کہ دلوں میں ایمان نہیں ہے۔ 

لیکن یہ فرق ہر جگہ ملحوظ نہیں ہوتا، قرآنِ مجید میں ہی بعض انبیاءِ کرام علیہم السلام کے لیے اور اس امتِ محمدیہ کے لیے امتِ مسلمہ اور مسلمانوں کے لیے مسلمین کا لفظ استعمال ہوا ہے، ان جگہوں پر اسلام مع ایمان مراد ہے، اس لیے کہ انبیاءِ کرام علیہم السلام کے بارے میں تو کبھی یہ تصور بھی نہیں کیا جاسکتا (حاشا للہ)، اسی طرح امتِ مسلمہ جس کی تعریف و توصیف کی جارہی ہو، اور جس کے بارے میں وقت کے نبی دعا کررہے ہوں، اور ابراہیم علیہ السلام جس امت کو مسلمین کا نام دے رہے ہوں ان کے لیے اسلام کے ساتھ حقیقی ایمان ہونا بھی ضروری ہے، لہٰذا کبھی  مؤمن کہہ کر مسلم یا مسلم کہہ کر مؤمن بھی مراد لیا جاتا ہے۔ 

بہرحال جو  مؤمن ہو وہ مسلم بھی ضرور ہوگا،   لیکن ہر مسلم (ظاہر میں اسلام کا اظہار کرنے والے ) کا مؤمن ہونا لازمی نہیں، کیوں کہ ہوسکتا ہے کہ کوئی ظاہری طور پر زبان سے تو کلمہ اور نماز پڑھتا ہو ، لیکن دل میں کفریہ عقائد رکھتا ہو۔

تفسير ابن كثير ط العلمية (7/ 393):
" فأخرجنا من كان فيها من المؤمنين (35) فما وجدنا فيها غير بيت من المسلمين (36)

فما وجدنا فيها غير بيت من المسلمين احتج بهذه من ذهب إلى رأي المعتزلة ممن لايفرق بين مسمى الإيمان والإسلام، لأنه أطلق عليهم المؤمنين والمسلمين، وهذا الاستدلال ضعيف؛ لأن هؤلاء كانوا قوماً مؤمنين، وعندنا أن كل مؤمن مسلم ولاينعكس، فاتفق الاسمان هاهنا لخصوصية الحال، ولايلزم ذلك في كل حال".

تفسير القرطبي (17/ 48):
"قوله تعالى: (فأخرجنا من كان فيها من المؤمنين) أي لما أردنا إهلاك قوم لوط أخرجنا من كان في قومه من المؤمنين، لئلايهلك المؤمنون، وذلك قوله تعالى: (فأسر بأهلك) 1. (فما وجدنا فيها غير بيت من المسلمين) يعني لوطاً وبنتيه وفيه إضمار، أي فما وجدنا فيها غير أهل بيت. وقد يقال: بيت شريف يراد به الأهل. وقوله: (فيها) كناية عن القرية ولم يتقدم لها ذكر، لأن المعنى مفهوم. وأيضا فقوله تعالى: (إنا أرسلنا إلى قوم مجرمين) يدل على القرية، لأن القوم إنما يسكنون قرية. وقيل: الضمير فيها للجماعة. والمؤمنون والمسلمون ها هنا سواء فجنس اللفظ لئلا يتكرر، كما قال: نما أشكوا بثي وحزني إلى الله) . وقيل: الإيمان تصديق القلب، والإسلام الانقياد بالظاهر، فكل مؤمن مسلم وليس كل مسلم مؤمنا. فسماهم في الآية الأولى مؤمنين، لأنه ما من مؤمن إلا وهو مسلم. وقد مضى الكلام في هذا المعنى في (البقرة)  وغيرها. وقوله: (قالت الأعراب آمنا قل لم تؤمنوا) يدل على الفرق بين الإيمان والإسلام وهو مقتضى حديث جبريل عليه السلام في صحيح مسلم وغيره. وقد بيناه في غير موضع".

تفسير القرطبي (16/ 348):
{قالت الأعراب آمنا قل لم تؤمنوا ولكن قولوا أسلمنا ولما يدخل الإيمان في قلوبكم وإن تطيعوا الله ورسوله لا يلتكم من أعمالكم شيئا إن الله غفور رحيم} (14)
نزلت في أعراب م نبنى أسد بن خزيمة قدموا على رسول الله صلى الله عليه وسلم في سنة جدبة وأظهروا الشهادتين ولم يكونوا مؤمنين في السر. وأفسدوا طرق المدينة بالعذرات وأغلوا أسعارها، وكانوا يقولون لرسول الله صلى الله عليه وسلم: أتيناك بالأثقال والعيال ولم تقاتلك كما قاتلك بنو فلان فأعطنا من الصدقة، وجعلوا يمنون عليه فأنزل الله تعالى فيهم هذه الآية. وقال ابن عباس: نزلت في أعراب أرادوا أن يتسموا باسم الهجرة قبل أن يهاجروا، فأعلم الله أن لهم أسماء الأعراب لا أسماء المهاجرين. وقال السدي: نزلت في الأعراب المذكورين في سورة الفتح: أعراب مزينة وجهينة وأسلم وغفار والديل وأشجع، قالوا آمنا ليأمنوا على أنفسهم وأموالهم، فلما استنفروا إلى المدينة تخلفوا، فنزلت. وبالجملة فالآية خاصة لبعض الأعراب، لأن منهم من يؤمن بالله واليوم الآخر كما وصف الله تعالى.
ومعنى «ولكن قولوا أسلمنا» أي استسلمنا خوف القتل والسبي، وهذه صفة المنافقين؟ لأنهم أسلموا في ظاهر إيمانهم ولم نؤمن قلوبهم، وحقيقة الإيمان التصديق بالقلب. وأما الإسلام فقبول ما أتى به النبي صلى الله عليه وسلم في الظاهر، وذلك يحقن الدم".

تفسير القرطبي (1/ 193):
{ومن الناس من يقول آمنا بالله وباليوم الآخر وما هم بمؤمنين (8) 

الثالثة لما ذكر الله جل وتعالى المؤمنين أولا، وبدأ بهم لشرفهم وفضلهم، ذكر الكافرين في مقابلتهم، إذ الكفر والإيمان طرفان. ثم ذكر المنافقين بعدهم وألحقهم بالكافرين قبلهم، لنفي الإيمان عنهم بقوله الحق:" وما هم بمؤمنين". ففي هذا رد على الكرامية حيث قالوا: إن الإيمان قول باللسان وإن لم يعتقد بالقلب، واحتجوا بقوله تعالى:" فأثابهم الله «2» بما قالوا" [المائدة: 85]. ولم يقل: بما قالوا وأضمروا، وبقوله عليه السلام: (أمرت أن أقاتل الناس حتى يقولوا لا إله إلا الله فإذا قالوها عصموا مني دمائهم وأموالهم (. وهذا منهم قصور وجمود، وترك نظر لما نطق به القرآن والسنة من العمل مع القول والاعتقاد، وقد قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: (الإيمان معرفة بالقلب وقول باللسان وعمل بالأركان). أخرجه ابن ماجه في سننه. فما ذهب إليه محمد بن كرام السجستاني وأصحابه هو النفاق وعين الشقاق، ونعوذ بالله من الخذلان وسوء الاعتقاد".  فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144012201937

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں