بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 رمضان 1445ھ 29 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

موت کے وقت شیطان کس طرح بہکاتا ہے؟


سوال

موت کے وقت شیطان کس طرح بہکاتا ہے؟  کیا  مرنے والے انسان کو بہت پانی کی طلب ہوتی ہے؟

جواب

واضح رہے کہ احادیثِ مبارکہ سے یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ جب تک انسان کے بدن میں روح باقی رہتی ہے، اس وقت تک انسان پر شیطان کا بس چلتا ہے، روح پرواز کرجانے کے بعد انسان اس کی دست رس سے باہر ہوجاتا ہے، جیساکہ مسند احمد میں ہے:

’’وعن أبي سعيد الخدري رضي الله عنه عن النبي صلى الله عليه وسلم قال: قال إبليس: وعزتك لاأبرح أغوي عبادك ما دامت أرواحهم في أجسادهم، فقال: وعزتي وجلالي لاأزال أغفر لهم ما استغفروني‘‘.  ( رقم الحديث: ١٠٩٧٤)

ترجمہ: حضرت ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ابلیس نے کہا: (اے اللہ) تیری عزت کی قسم! میں آپ کے بندوں کو مسلسل گم راہ کرتا رہوں گا جب تک روح ان کے جسموں میں ہوگی۔ اللہ تبارک وتعالیٰ نے ارشاد فرمایا: میری عزت اور میرے جلال کی قسم! میں بھی برابر ان کی مغفرت کرتا رہوں گا جب تک وہ مجھ سے بخشش طلب کرتے رہیں گے۔

صحيح مسلم میں ہے: 

’’عن جابر رضي الله عنه قال : سمعت النبي صلى الله عليه وسلم يقول : إِنَّ الشَّيطَانَ يَحضُرُ أَحَدَكُم عِندَ كُلِّ شَيْءٍ مِن شَأنِهِ ‘‘. (رقم: ٢٠٣٣)

یہی وجہ ہے رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم امت کی تعلیم کے لیے خاص طور پر موت کے وقت شیطان کے فتنہ سے بچاؤ کی دعا فرمایا کرتے تھے، جیساکہ سنن ابی داؤد و دیگر کتبِ حدیث میں ہے:

’’عن أبي اليسر رضي الله عنه أن رسول الله صلى الله عليه وسلم كان يدعو: "الَّلهُمَّ إِنِّي أَعُوذُ بِكَ مِنَ الهَدمِ، وَأَعُوذُ بِكَ مِنَ التَرَدِّي، وَأَعُوذُ بِكَ مِنَ الغَرَقِ وَالحَرَقِ وَالهَرَمِ، وَأَعُوذُبِكَ أَن يَتَخَبَّطَنِي الشَّيطَانُ عِندَ المَوتِ، وَأَعُوذُ بِكَ أَن أَمُوتَ فِي سَبِيلِكَ مُدبِرًا، وَأَعُوذُ بِكَ أَن أَمُوتَ لَدِيغًا‘‘. ( سنن أبي داؤد، رقم: ١٥٤٩، سنن النسائي، رقم: ٥٥٣١)

ترجمہ: حضرت ابو الیسر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ یہ دعا فرمایا کرتے تھے: اے للہ بے شک میں آپ کی پناہ چاہتاہوں ہدم (کسی مکان وغیرہ منہدم ہونے سے موت) سے۔ اور میں آپ کی پناہ چاہتاہوں اونچائی سے گر کر ہلاک ہونے سے، اور میں آپ کی پناہ چاہتاہوں غرق ہوکر یا آگ سے جل کر مرنے سے اور بڑھاپے سے، اور آپ کی پناہ چاہتاہوں اس بات سے کہ موت کے وقت شیطان میرے حواس مختل کرے، اور میں آپ کی پناہ چاہتاہوں اس بات سے کہ میں مروں آپ کے راستے میں پیٹھ پھیر کر بھاگتے ہوئے، اور میں آپ کی پناہ چاہتاہوں کہ میں سانپ کے ڈسنے سے مرجاؤں۔

"عون المعبود" میں ہے:

’’( أن يتخبطني الشيطان ) أي : إبليس أو أحد أعوانه ، قيل : التخبط الإفساد ، والمراد إفساد العقل و الدين ، وتخصيصه بقوله ( عند الموت )؛ لأن المدار على الخاتمة . وقال القاضي : أي من أن يمسني الشيطان بنزغاته التي تزل الأقدام وتصارع العقول والأوهام ... قال الخطابي : استعاذته عليه الصلاة والسلام من تخبط الشيطان عند الموت ، هو أن يستولي عليه الشيطان عند مفارقته الدنيا ، فيضله ويحول بينه وبين التوبة ، أو يعوقه عن إصلاح شأنه والخروج من مظلمة تكون قِبَله ، أو يؤيسه من رحمة الله تعالى ، أو يكره الموت ويتأسف على حياة الدنيا ، فلا يرضى بما قضاه الله من الفناء ، والنقلة إلى دار الآخرة ، فيختم له بسوء ، ويلقى الله وهو ساخط عليه . وقد روي أن الشيطان لا يكون في حال أشد على ابن ادم منه في حال الموت ، يقول لأعوانه : دونكم هذا ، فإنه إن فاتكم اليوم لم تلحقوه بعد اليوم . نعوذ بالله من شره ، ونسأله أن يبارك لنا في ذلك المصرع ، وأن يجعل خير أيامنا يوم لقائه " انتهي‘‘. ( كتاب الوتر، باب: ٣٢، رقم الحديث، ١٥٤٩، ٤ / ٢٦٠)

تاہم اس وقت انسان پر شیطان کس طرح حملہ آور ہوتا ہے؟  اس کی تفصیل کسی صحیح حدیث میں نہیں ملتی، البتہ امام قرطبی رحمہ اللہ نے اپنی تصنیف:"كتاب التذكرة بأحوال الموتى وأمور الآخرة" میں ایک روایت نقل کی ہے کہ جب کسی کی موت کا وقت ہوتا ہے تو اس کے پاس دائیں جانب باپ کی شکل میں اور بائیں جانب ماں کی شکل میں دو شیطان آ بیٹھتے ہیں، دائیں جانب والا کہتا ہے کہ اے میرے لختِ  جگر!  دیکھو میں تمہارے  لیے کتنا مشفق تھا اور تمہیں کتنا چاہتا تھا، مگر میں عیسائی مرا تھا اور عیسائیت ہی بہترین دین ہے، جب کہ بائیں جانب والا کہتا ہے: اے میرے جگر کے ٹکڑے! تمہارے لیے میرا پیٹ ایک برتن تھا، اور میرے پستان تمہارے لیے پینے کا ذریعہ تھے، میری ران تمہارے  لیے بچھونا تھی، لیکن میں یہودی مری، اور یہودیت ہی بہترین دین ہے۔

" روي عن النبي صلى الله عليه وسلم : أن العبد إذا كان عند الموت قعد عنده شيطانان: الواحد عن يمينه والآخر عن شماله، فالذي عن يمينه على صفة أبيه، يقول له: يا بني! إني كنت عليك شفيقاً ولك محباً، ولكن مت على دين النصارى فهو خير الأديان، والذي على شماله على صفة أمه، تقول له: يا بني! إنه كان بطني لك وعاءً، وثديي لك سقاءً، وفخذي لك وطاءً، ولكن مت على دين اليهود وهو خير الأديان". ( باب ما جاء أن الشيطان يحضر الميت عند موته و جلساؤه في الدنيا و ما يخاف من سوء الخاتمة، ١ / ١٨٥، ط: مكتبة دار المنهاج) و كذا في ( دليل المسلمين شرح رياض الصالحين، للشيخ علي احمد عبد العال الطهطاوي، باب ما يقوله من يحضر الميت من الشياطين، ٢ / ٩٧، ط: دار الكتب العلمية)

تاہم اس ورایت کو اہلِ فن نے ضعیف قرار دیا ہے، جیساکہ "سكب العبرات للموت و القبر و السكرات" میں ہے:

"ضعيف: أخرجه أبو الحسن القابسي في "شرح رسالة ابن أبي زيد" له، و ابن المفلح في " مصائب الإنسان" بصيغة التضعيف". ( ٣ / ٢٨٨، رقم: ١٠١، ط: مكتبة معاذ بن جبل) بہرحال موت کے وقت شیطان کی جانب سے انسان کو بہکانے کے لیے حملہ کرنا ثابت ہے، خصوصاً اس وجہ سے کہ یہ سختی کا وقت ہے، اور انسان اس وقت بہت محتاج ہوتاہے، البتہ حملہ کی نوعیت متعین نہیں، کسی کو وسوسہ میں مبتلا کر دیتا ہے، اور موت کے وقت اللہ سے مایوس یا اللہ کی جانب سے موت کے فیصلہ پر عدمِ رضا، یا موت کے وقت کسی کے سامنے آکر بہکانے کی کوشش کرنا، سب صورتیں ممکن ہیں۔  بعض بزرگانِ ملت کے سامنے آ کر موت کے وقت  بہکانے کی کوشش کرنا، مستند حوالوں سے ثابت ہے، جیسے امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ جیسے امامِ اہلِ سنت والجماعت کی موت کے وقت ان کو بہکانے کے لیے شیطان کا آنا امام قرطبی رحمہ اللہ نے "كتاب التذكرة بأحوال الموتى وأمور الآخرة" میں نقل کیا ہے:

"قال عبد الله بن أحمد بن حنبل: حضرت وفاة أبي ـ أحمد ـ وبيدي الخرقة لأشد لحييه، فكان يعرق ثم يفيق، ويقول بيده: لا، بعد، لا، بعد. فعل هذا مراراً!! فقلت له: يا أبت أي شيء ما يبدو منك؟ فقال: إن الشيطان قائم بحذائي عاض على أنامله، يقول: يا أحمد فُتَّنِي، وأنا أقول: لا، بعد، لا، حتى أموت. قلت: وقد سمعت شيخنا الإمام أبا العباس أحمد بن عمر القرطبي بثغر الإسكندرية يقول: حضرت أخا شيخنا أبي جعفر أحمد بن محمد بن محمد القرطبي بقرطبة وقد احتضر. فقيل له: قل: لا إله إلا الله، فكان يقول: لا. لا. فلما أفاق ذكرنا له ذلك فقال: أتاني شيطانان عن يميني وعن شمالي. يقول أحدهما: مت يهودياً فإنه خير الأديان، والآخر يقول: مت نصرانياً فإنه خير الأديان، فكنت أقول لهما: لا، لا" انتهى". ( باب ما جاء أن الشيطان يحضر الميت عند موته و جلساؤه في الدنيا و ما يخاف من سوء الخاتمة، ١ / ١٨٥، ط: مكتبة دار المنهاج)

"مجموع الفتاوى" لابن تيميةمیں ہے:

"أما عرض الأديان على العبد وقت الموت فليس هو أمراً عاماً لكل أحد، ولا هو أيضاً منتفياً عن كل أحد، بل من الناس من تعرض عليه الأديان قبل موته، ومنهم من لا تعرض عليه، وقد وقع لأقوام، وهذا كله من فتنة المحيا والممات التي أمرنا أن نستعيذ منها في صلاتنا ... ولكن وقت الموت أحرص ما يكون الشيطان على إغواء بني آدم؛ لأنه وقت الحاجة". ( ٤ / ٢٥٥)

شیطان انسان کو کیسے گم راہ کرتاہے؟ اس کی کوئی خاص صورت متعین نہیں کی جاسکتی، مختلف اشخاص، ان کے مزاج اور ضروریات کے اعتبار سے شیطان کا بہکاوا مختلف ہوسکتاہے، مجموعی طور پر شیطان کی دسیسہ کاریوں کو سمجھنے کے لیے ابن جوزی رحمہ اللہ کی کتاب ’’تلبیس إبلیس‘‘ کا مطالعہ مفید رہے گا۔

وقتِ  نزاع انتہائی کرب کا وقت ہوتا ہے، جس وقت عین ممکن ہے کہ پیاس بھی لگتی ہو، تاہم نصوص میں اس حوالے سے کوئی صراحت نہیں مل سکی۔ فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144010200002

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں