بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

10 شوال 1445ھ 19 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

ملازم کو فرض نماز کے لیے جانے سے روکنا


سوال

اگرکوئی شخص ملازم کو نماز کے لیے جانے پر کہے کہ میں نماز کو نہیں مانتا، مجھے صرف کام چاہیے، ایسے شخص کے متعلق شریعت کا کیا حکم ہے؟

جواب

دورانِ ملازمت ملازم کو فرض نماز  کی اجازت دینا ضروری ہے، اسے فرض نماز سے روکنا شرعاً درست نہیں، لہذا مذکورہ شخص کا اپنے ملازم سے یہ کہنا  درست نہیں کہ :’’میں نماز کو نہیں مانتا، مجھے صرف کام چاہیے‘‘، مذکورہ جملہ کی وضاحت مذکورہ شخص سے لیے بغیر اس کا حکم نہیں لگایا جاسکتا۔

"قال في التتارخانية: وفي فتاوى الفضلي: وإذا استأجر رجلًا يومًا يعمل كذا، فعليه أن يعمل ذلك العمل إلى تمام المدة ولايشتغل بشيء آخر سوى المكتوبة، وفي فتاوى سمرقند: وقد قال بعض مشايخنا: له أن يؤدي السنة أيضًا. واتفقوا أنه لايؤدّي نفلًا، وعليه الفتوى. وفي غريب الرواية قال أبو علي الدقاق: لايمنع في المصر من إتيان الجمعة ويسقط من الأجير بقدر اشتغاله إن كان بعيدًا، وإن قريبًا لم يحط شيء فإن كان بعيدًا واشتغل قدر ربع النهار يحط عنه ربع الأجرة". (الدر المختار وحاشية ابن عابدين، كتاب الإجارة، باب ضمان الأجير 6 / 70 ط: سعيد) فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144106200090

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں