بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 رمضان 1445ھ 28 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

مغرب کی نمازمیں تعجیل اور عشاء کی نماز میں ثلث اللیل تک تاخیر مستحب ہے


سوال

میں نے ایک حدیثِ مبارک  سنی ہے جس کا مفہوم ہے کہ ’’میری امت تب تک خیر میں رہے گی جب تک مغرب کی نماز میں جلدی اور عشاء کی نماز میں دیر کرے گی‘‘۔ کیا ہے حدیث صحیح ہے؟ اور یہ بھی بتایئے گا کہ عشاء کی نماز میں کتنی دیر کر سکتے ہیں؟(خواتین کے لیے)

جواب

احادیثِ مبارکہ میں مغرب کی نماز کو سورج کے غروب کا یقین ہوتے ہی جلدی پڑھنے کاحکم دیا گیا ہے، نبی کریم ﷺ نے بلاعذر ستاروں کی کثرت تک نمازِ مغرب مؤخر کرنے کو اس امت کی خیر سے روگردانی کی علامت بتایا ہے، سنن ابی داؤد کی صحیح حدیث میں حضرت مرثد بن عبد اللہ سے روایت ہے کہ جب حضرت ابو ایوب رضی اللہ تعالیٰ عنہ  ہمارے پاس غزوہ سے واپس آئے، یہ ان دنوں کی بات ہے جب مصر کے حاکم عقبہ بن عامر ؓ تھے، تو انہوں نے مغرب کی نماز تاخیر سے پڑھی، حضرت ابوایوب ؓ کھڑے ہوئے اورناراضی کا اظہار کرتے ہوئے ا ن سے کہا :اے عقبہ! یہ کون سی نماز ہے؟ انہوں نے جواب دیا کہ ہم کسی کام میں مصروف تھے ،اس لیے نماز تاخیر سے پڑھی، حضرت ابو ایوب ؓ نے فرمایا : کیا تم نے نبی کریم ﷺ  کا یہ فرمان نہیں سنا : میری امت اس وقت تک خیریا فطرت پر قائم رہے گی جب تک وہ مغرب کی نماز ستاروں کی کثرت تک مؤخر کرکے نہ پڑھے۔

سنن أبي داود (1/ 113):
" عَنْ مَرْثَدِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ، قَالَ: لَمَّا قَدِمَ عَلَيْنَا أَبُو أَيُّوبَ غَازِيًا وَعُقْبَةُ بْنُ عَامِر يَوْمَئِذٍ عَلَى مِصْرَ فَأَخَّرَ الْمَغْرِبَ فَقَامَ إِلَيْهِ أَبُو أَيُّوب، فَقَالَ: لَهُ مَا هَذِهِ الصَّلَاةُ يَا عُقْبَةُ؟ فَقَالَ: شُغِلْنَا، قَالَ: أَمَا سَمِعْتَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ  يَقُولُ: «لَا تَزَالُ أُمَّتِي بِخَيْرٍ» - أَوْ قَالَ: عَلَى الْفِطْرَةِ - مَا لَمْ يُؤَخِّرُوا الْمَغْرِبَ إِلَى أَنْ تَشْتَبِكَ النُّجُومُ ".

لہٰذا سورج کے غروب کا یقین ہوتے ہی اذان دے کر اذان کے بعد تین مختصر آیات یا ایک طویل آیت کے بقدر وقفہ دے کر نمازِ مغرب ادا کرلینی چاہیے، البتہ کوئی معتبر شرعی عذر ہو (مثلاً سفر جاری ہو اور اس وقت سفر روکنے میں حرج ہو، یا کوئی اور عذر ہو) تو مغرب کے وقت کے اندر اندر نماز ادا کرنے سے نماز ادا ہوجائے گا۔

نیز عشاء کی نماز میں  آپ ﷺ تاخیر سے ادا فرمانے کو پسند فرماتے تھے،  ابوہریرہ  ؓ  سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا اگر مجھے اپنی امت پر گراں گذرنے کا خیال نہ ہوتا تو میں انہیں تہائی رات یا آدھی رات تک عشاء کی نماز کے تاخیر کرنے کا حکم دیتا۔

لہذا نماز عشاء تہائی رات سے پہلے تک مؤخر کرنا مستحب ہے (جب کہ کوئی اور عارض نہ ہو)اور آدھی رات تک پڑھنا بلا کراہت جائز ہے اور آدھی رات سے صبح صادق تک بلا عذر تاخیر کرنا مکروہ ہے۔ خواتین کے لیے بھی آدھی رات تک عشاء کی نماز مؤخر کرنا بلاکراہت جائز ہے، اس کے بعد بلاعذر تاخیر میں کراہت ہے۔

سنن الترمذي ت شاكر (1/ 310):
"عن أبي هريرة، قال: قال النبي صلى الله عليه وسلم: «لولا أن أشق  على أمتي لأمرتهم أن يؤخروا العشاء إلى ثلث الليل أو نصفه»". 
فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144008201666

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں