بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

11 شوال 1445ھ 20 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

مغرب کی نماز اور اذان کے درمیان وقفہ کی شرعی حیثیت اور اس کی مقدار


سوال

مغرب کی نماز اور اذان کے درمیان 2، 3 منٹ کا وقفہ کرنا شرعاً  کیسا ہے؟ جائز ہے یا ناجائز ہے یا مستحب ہے؟ کرنا چاہیے یا نہیں  کرنا چاہیے؟ مفصل ومدلل جواب عنایت فرمائیں!

جواب

عام نمازوں میں نماز اور اذان میں اتنے وقفہ کا حکم ہے کہ کھانا کھانے والا اپنے کھانے سے، پینے  والا اپنے پینے سے، اور قضاءِ حاجت کرنے والا قضاءِ حاجت کرکے فارغ ہوجائے۔مغرب کی نماز میں چوں کہ تعجیل کا حکم ہے ؛ اس لیے اس میں اتنا وقفہ کرنا درست نہیں ہے، لیکن بالکل وصل بھی مکروہ ہے؛ اس لیے اذان اور اقامت کے درمیان کچھ فصل ہونا ضروری ہے، مغرب کی نماز میں اس فصل کی تحدید   میں امام صاحب رحمہ اللہ کا  قول  یہ ہے کہ ایک سکتہ کے بقدر وقفہ کرے، اور موذن بیٹھے نہیں ، اور ایک سکتہ کی مقدار ان کے ہاں ایک بڑی آیت یا تین چھوٹی آیات کے بقدر ہے، اور ایک روایت کے مطابق تین  خطوات چلنے کے بقدر۔ اور صاحبین رحمہما اللہ کے نزدیک دو خطبوں کے درمیان جلسہ کے بقدر  وقفہ کرنا کافی ہے، یعنی ان کے بقول مؤذن اتنی مقدار بیٹھے گا کہ زمین  پر تمکن حاصل ہوجائے اور اس میں طوالت  نہ ہو۔ اور خود امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کا عمل بھی یہی تھا کہ مغرب کی اذان اور نماز  کے درمیان وہ   بیٹھتے نہیں تھے۔اور یہ اختلاف  افضلیت میں ہے؛ اس لیے مغرب کی اذان اور اقامت کے درمیان  بیٹھنا امام صاحب کے نزدیک بھی جائز ہے  اور نہ بیٹھنا اور تین آیتوں کے بقدرکھڑے کھڑے فصل کرنا  صاحبین کے نزدیک بھی جائز ہے۔
 حاصل یہ ہے کہ عام حالت میں مغرب کی نماز میں تعجیل افضل ہے، مغرب کی  نماز اور اذان میں صرف ایک بڑی آیت یا تین مختصر آیات کی تلاوت کے بقدر  وقفہ کرکے نماز پڑھ لینی چاہیے،   اور جتنی دیر میں دورکعت ادا کی جاتی ہیں  (یعنی 2 منٹ ) یا اس سے   زیادہ  تاخیر کرنا مکروہِ تنزیہی ہے، اور  بغیر عذر کے اتنی تاخیر کرنا کہ ستارے چمک جائیں  مکروہِ تحریمی ہے۔ (فتاویٰ جامعہ و حاشیۃ الطحطاوی)

البتہ عذر کی وجہ سے تاخیر مکروہ نہیں ہے،جیساکہ مرض وسفر کی بنا پر  مغرب کو آخر وقت تک مؤخر کرنا اور عشاء کو اول وقت میں پڑھنا درست ہے۔

المحيط البرهاني في الفقه النعماني (1/ 346):

"قال في «الجامع الصغير» : ويجلس بين الأذان والإقامة إلا في المغرب، وهذا قول أبي حنيفة، وقال أبو يوسف ومحمد رحمهما الله: يجلس في المغرب أيضاً جلسةً خفيفةً، يجب أن يعلم بأن الفصل بين الأذان والإقامة في سائر الصلوات مستحب.والأصل في ذلك قوله عليه السلام لبلال: «اجعل بين أذانك وإقامتك مقدار ما يفرع الأكل من أكله، والشارب من شربه» ، واعتبر الفصل في سائر الصلوات بالصلاة، حتى قلنا: إن في الصلوات التي قبلها تطوع مسنون أو مستحب، فالأولى للمؤذن أن يتطوع بين الأذان الإقامة.جاء في تفسير قوله تعالى: {ومن أحسن قولاً ممن دعآ إلى الله وعمل صٰلحاً} (فصلت: 33) أنه المؤذن يدعوا الناس بأذانه ويتطوع بعده قبل الإقامة، ولم يعتبر الفصل في المغرب بالصلاة؛ لأن الفصل بالصلاة في المغرب يؤدي إلى تأخير المغرب عن أول وقته، وتأخير المغرب مكروه، وقال النبي عليه السلام: «لا تزال أمتي بخير ما لم يؤخروا المغرب إلى اشتباك النجوم»، ويؤيده قوله عليه السلام: «بين كل أذانين صلاة إلا المغرب» ، وأراد بالأذانين الأذان والإقامة، وإذا لم يفصل بالصلاة في المغرب يتأدى بفصل، قال أبو يوسف ومحمد: يفصل بجلسة خفيفة؛ لأن الجلسة صالحة للفصل. ألا ترى أنها صلحت للفصل بين الخطبتين يوم الجمعة، فهنا كذلك، وقال أبو حنيفة: يفصل بالسكوت؛ لأن لما لم يفصل بالصلاة التي هي عبادة، لتكون أقرب إلى الأداء أبعد عن التأخير فلأن لا يفصل ... بعبادة أولى، والفصل يحصل بالسكوت حقيقةً، فلا حاجة إلى اعتبار الجلسة للفصل، ثم عند أبي حنيفة مقدار السكتة ما يقرأ ثلاث آيات قصار أو آية طويلة، وروي عنه أنه قال: مقدار ما يخطو ثلاث خطوات، وعندهما مقدار الجلسة ما جلس الخطيب بين الخطبتين من غير أن يطول، وتمكن مقعده على الأرض".

البناية شرح الهداية (2/ 102)

"ويجلس بين الأذان والإقامة، إلا في المغرب، وهذا عند أبي حنيفة - رحمه الله -، وقالا: يجلس في المغرب أيضاً جلسةً خفيفةً؛ لأنه لا بد من الفصل، إذ الوصل مكروه، ولا يقع الفصل بالسكتة؛ لوجودها بين كلمات الأذان، فيفصل بالجلسة كما بين الخطبتين، ولأبي حنيفة - رحمه الله - أن التأخير مكروه، فيكتفي بأدنى الفصل احترازاً عنه، والمكان في مسألتنا مختلف، وكذا النغمة، فيقع الفصل بالسكتة، ولا كذلك الخطبة. وقال الشافعي: يفصل بركعتين اعتباراً بسائر الصلوات، والفرق قد ذكرناه. قال يعقوب:  رأيت أبا حنيفة - رحمه الله تعالى - يؤذن في المغرب ويقيم، ولا يجلس بين الأذان والإقامة، وهذا يفيد ما قلناه".

"حاشیہ طحطاوی" میں ہے:

'' (قوله: إلی اشتباک النجوم) ظاهره أنها بقدر رکعتین لایکره مع أنه یکره أخذاً من قولهم بکراهة رکعتین قبلها۔ واستثناء صاحب القنیة القلیل یحمل علی ما هو الأقل من قدرهما توفیقاً بین کلام الأصحاب… واعلم أن التاخیربقدر رکعتین مکروه تنزیهاً وإلی اشتباک النجوم تحریماً"۔ (حاشیہ طحطاوی ج:۱، ص:۱۷۸، ط:قدیمی)۔

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 143909201479

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں