بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 رمضان 1445ھ 28 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

مغرب کی اذان و نماز میں وقفہ کا حکم ، بعد نماز جمعہ جہراً دعا کروانا


سوال

1۔ مغرب کی اذن وجماعت کے درمیان جو وقفہ بوجہ انتظارِ مصلین رواج پا چکا ہے، اس میں کتنی تاخیرکی گنجائش ہے ؟ کیا تین منٹ یا اس سے زائد وقفہ قابلِ قبول ہے یا ممنوع ہے؟

2۔ رمضان میں مغرب کی اذان وجماعت کے درمیان جو وقفہ ہوتا ہے بوجہ افطار اس میں کتنے وقفہ کی گنجائش ہے ؟ آیا دس سے پندرہ منٹ کا وقفہ بھی قابلِ قبول ہے؟

3۔ جمعہ کی نماز کی بعد   جہراً دعا کی جاتی ہے، اس میں جہری دعا کی اجازت ہے یا نہیں؟اور اس دعا کا دورانیہ اگر پانچ سے سات منٹ کا ہو تو کیا اس میں کو ئی شرعی قباحت ہے؟

جواب

1۔مغرب کی اذان اوراقامت کے درمیان امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کے نزدیک تین چھوٹی آیات یاایک بڑی آیت کے بقدر وقفہ کیاجاسکتاہے، اس سے زیادہ وقفہ کرناجائزنہیں، (الغرض اتنا وقفہ ہوکہ اذان کے بعد کی دعا اور درود شریف اعتدال کے ساتھ پڑھ لے۔)اس سے زیادہ وقفہ،خصوصاً مروجہ وقفہ (جس میں کئی مفاسداورخرابیاں پائی جاتی ہیں )کی فقہ حنفی میں گنجائش نہیں۔تفصیل کے لیے ماہنامہ بینات ،ماہ ذوالحجہ 1437ھ/اکتوبر2016،ص:20تا24 اور ماہ محرم الحرام 1438ھ/نومبر 2016ء ص:14 تا 17ملاحظہ فرمائیں۔

http://www.banuri.edu.pk/articles/topic/ahkam-u-masail-u-fatawa

2۔ رمضان المبارک میں روزہ داروں اور نمازیوں کی سہولت کی خاطر دس منٹ تک وقفہ کی گنجائش ہے ، اس سے زیادہ تاخیر کرنا درست نہیں ۔

"(قوله: إلی اشتباک النجوم) ظاهره أنها بقدر رکعتین لایکره مع أنه یکره أخذاً من قولهم بکراهة رکعتین قبلها۔ واستثناء صاحب القنیة القلیل یحمل علی ما هو الأقل من قدرهما توفیقاً بین کلام الأصحاب…واعلم أن التاخیربقدر رکعتین مکروه تنزیهاً وإلی اشتباک النجوم تحریماً". (حاشیہ طحطاوی ج:۱، ص:۱۷۸، ط:قدیمی)

3۔ فرض نمازوں  کے بعددعاکرنا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم، صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین اورسلف صالحین سے ثابت ہےاور دعا کے آداب میں سے ہے کہ ہاتھ اٹھا کر دعا کی جائے  اور آں حضرت ﷺ سے بھی  دعا میں ہاتھ اٹھانا ثابت ہے۔

"المعجم الکبیر " میں  علامہ طبرانی رحمہ اللہ نے ایک روایت ذکر کی ہے کہ  محمد بن یحیی اسلمی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: میں نے عبد اللہ بن  زبیر  رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو دیکھا، انہوں نے ایک شخص کو دیکھا کہ  وہ نماز سے فارغ ہونے سے پہلے ہی ہاتھ اٹھا کر دعا کررہا تھا، جب وہ نماز سے فارغ ہوا تو  حضرت عبد اللہ بن زبیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اس سے فرمایا: رسول اللہ ﷺ جب تک نماز سے فارغ نہ ہوتے  اس وقت تک (دعا کے لیے) ہاتھ نہیں اٹھاتے تھے ( لہذا تم بھی ایسا ہی کرو)۔ (المعجم الكبير للطبراني 13/ 129، برقم: 324)

 اسی طرح "کنزالعمال" میں حضرت انس رضی اللہ عنہ سے منقول ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جوبندہ نمازکے بعدہاتھ اٹھاکراللہ تعالیٰ سے دعاکرتاہے اورکہتاہے کہ اے میرے معبود....اللہ تعالیٰ اس کی دعا کوضرورقبول فرماتے ہیں ،اسے خالی ہاتھ واپس نہیں لوٹاتے۔

دعا میں  ہاتھ اٹھانا حضور ﷺکی عادتِ شریفہ تھی ، حضرت سائب رضی اللہ عنہ اپنے والد سے نقل فرماتے ہیں  کہ رسول اللہ ﷺجب دعا فرماتے تھے تو اپنے دونوں  ہاتھ مبارک اٹھاتے اور فارغ ہوتے تو ان دونوں  کو اپنے چہرے پر پھیرتے۔

اس طرح کی روایات فرض نمازوں کے بعدہاتھ اٹھاکراجتماعی دعاکے ثبوت واستحباب کے لیے کافی ہیں۔ تاہم اسے سنتِ مستمرہ دائمہ کہنا مشکل ہے،اس بنا پراس کو ضروری اورلازم سمجھ کرکرنا،اورنہ کرنے والوں پرطعن وتشنیع کرنا بھی درست نہیں۔ اور یہ دعا فرض نمازوں نیز جمعہ کے بعدسر اً افضل ہے، البتہ تعلیم کی غرض سے  کبھی کبھار امام  جہراً بھی دعا کرا سکتا ہے اور اگر دعا کچھ طویل ہوجائے تو حرج نہیں۔فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144004200335

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں