بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 رمضان 1445ھ 28 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

معذور آدمی کے مال میں زکاۃ


سوال

میرا بہنوئی حاضر سروس آرمی نوکری کر رہا تھا،  ان کا ایکسیڈنٹ ہوا جس سے ان کی یاداشت اور نظر چلی گئی۔ آرمی نے ان کو ریٹائرمنٹ دے کے گھر بھیج دیا۔ اب وہ چارپائی پے ہیں، اور ہر کام کے لیے بیوی کے محتاج ہیں۔ آرمی سے ان کو 20لاکھ ملے۔ اسی سے ان کے بیوی بچوں کے اخراجات  اور ان کا علاج معالجہ ہو رہا۔ بچوں کی عمر 14، 12 سال ہے۔ ان کی بیوی ان کا پرائیویٹ علاج بھی کرا رہی ہے۔ اب ان کے پاس پندرہ لاکھ رہ گئے ۔ پچیس ہزار پینشن ملتی ہے، مگر گزارا ممکن نہیں۔اس لیے بنک سے نکلوانے پڑتے ہیں۔ انکم کا کوئی اور ذریعہ نہیں۔ گھر الحمدللہ ذاتی ہے۔ اب آپ سے پوچھنا یہ ہے کہ ان پندرہ لاکھ  پے زکاۃ کی شرح کیا ہوگی؟

جواب

اس صورت میں جب کہ  اس شخص کی یاد داشت جاچکی ہے اور ماضی کی بات یاد نہیں، لیکن  ابھی موجودہ صورتِ حال میں عقل باقی ہے یعنی اپنے بچوں بیوی کو پہچانتا ہے، تو اس صورت میں اس کے مال میں زکاۃ واجب ہوگی۔ اور اس کی شرح ڈھائی فی صد ہوگی، لہذا ان کی تمام مالیت جو ضرورت سے زائد ہو اس کا ڈھائی فیصد زکاۃ  میں دینا لازم ہوگا۔

اگر اخراجات زیادہ ہیں اور  بچوں کے بڑے ہونے تک ان  کی یہ رقم ختم ہونے کا اندیشہ ہے، تو یہ رقم کسی خدا ترس، امانت دار  اور مستند شخص کے پاس جائز کاروبار میں لگانی چاہیے؛  تاکہ اس کا نفع آتا رہے اور ان کی ضروریات پوری ہوسکیں۔

اور اگر  یاد داشت ایسی گئی ہو کہ اپنے بیوی بچوں کو نہ پہچان سکتا ہو،اور عقل موجود نہ ہو تو پھر اس کے مال میں زکاۃ واجب ہی نہ ہوگی۔(آپ کے مسائل اور انکا حل 3 / 472)

"فیحترز عمن یفیق أحیاناً أي یزول عنه ما به بالکلیة، وهذا کالعاقل البالغ في تلک الحالة". (رد المحتار، کتاب الحجر ج ۵ ص ۱۲۴)فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144004200365

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں