بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

14 شوال 1445ھ 23 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

معتکفین کو مسجد سے باہر ٹھرانا


سوال

خانقاہ میں مسنون اعتکاف کی کیا صورت ہوگی؟  یاد رہے کہ خانقاہ میں ایک حصہ نماز کے لیے وقف ہے ۔ اب سوچ رہے ہیں کہ اسی حصے کو مکمل طور پر مسجد کے لیے وقف کر دیا جائے ۔ لیکن کیا جب رمضان میں لوگوں کی تعداد زیادہ ہوگی، تو مسجد والے حصے سے باہر یعنی خانقاہ کے دوسرے ہال میں بھی معتکفین کو ٹھہرایا جا سکے گا؟ 

جواب

مسجدِ شرعی کا اطلاق صرف مسجد کی چار دیواری، فرش اور صحن پر ہی ہوتا ہے اور وہی شرعاً مسجد ہوتی ہے، اس کے علاوہ جو مسجد کی زمین کا احاطہ ہوتا ہے وہ مسجد نہیں ہوتی، لہذا مذکورہ صورت میں خانقاہ میں جب تک مسجدِ شرعی نہ بنادی جائے، اس وقت تک خانقاہ میں مسنون اعتکاف نہیں ہوگا، البتہ  جس حصے کو مکمل طور پرمسجد کے لیے وقف کرنے کا ارادہ ہے،  وقف کرنے کے بعد یہ حصہ مسجدِ شرعی کے حکم میں ہونے کی وجہ سے اس میں اعتکاف کرنا درست ہوگا، لیکن رمضان المبارک میں لوگوں کی تعداد زیادہ ہونے کی وجہ سے معتکفین کو اعتکاف کے لیے مسجد سے باہر دوسرے ہال میں ٹھہرانا درست نہیں ہوگا۔ جن لوگوں کو ابتدا ہی سےمسجدِ شرعی سے باہر  ٹھہرایا تو مسجد سے باہر ہونے  کی وجہ سے ان کا اعتکاف شروع ہی نہیں ہوگا، اور اعتکاف شروع کرنے کے بعد مسجدِ شرعی سے باہر ٹھہرانے کی صورت میں اعتکاف فاسد ہوجائے گا۔

الموسوعۃ الفقہیہ میں ہے:

’’ اتفق الفقهاء على أن المراد بالمسجد الذي يصح فيه الاعتكاف، ما كان بناء معداً للصلاة فيه.

أما رحبة المسجد، وهي ساحته التي زيدت بالقرب من المسجد لتوسعته، وكانت محجراً عليها، فالذي يفهم من كلام الحنفية والمالكية والحنابلة في الصحيح من المذهب أنها ليست من المسجد، ومقابل الصحيح عندهم أنها من المسجد، وجمع أبو يعلى بين الروايتين بأن الرحبة المحوطة وعليها باب هي من المسجد. وذهب الشافعية إلى أن رحبة المسجد من المسجد، فلو اعتكف فيها صح اعتكافه، وأما سطح المسجد فقد قال ابن قدامة: يجوز للمعتكف صعود سطح المسجد، ولا نعلم فيه خلافاً‘‘. (ما يعتبر من المسجد وما لا يعتبر: ۵/ ۲۲۴، ط: وزارة الأوقاف والشئون الإسلامية، الكويت)فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144001200479

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں