بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

16 شوال 1445ھ 25 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

مطلقہ رجعیہ اور بائنہ کی عدت میں شوہر کے انتقال کی صورت میں عدت اور میراث کے احکام


سوال

اگر ایک عورت کوطلاق ہو (طلاق کی تینوں اقسام کے متعلق اَحکام بتائیں ۔ طلاقِ رجعی۔طلاقِ بائن۔طلاقِ مغلظہ) اور عدت طلاق کے دوران اس کا شوہر فوت ہو جاۓ تو اس کی عدت پر روشنی ڈالیں اور وراثت کے متعلق بھی تشریح کیجیے!

جواب

اگر کسی عورت کے شوہر نے اس کو ایک یا دو طلاقِ رجعی دی، اور عدتِ طلاق کے دوران ہی اس کے شوہر کا انتقال ہوگیا، تو اس مطلقہ عورت کی عدت، عدتِ طلاق سے عدتِ وفات میں تبدیل ہوجائے گی، یعنی اب وہ عدتِ طلاق کی بجائے از سرِ نو چارماہ دس دن عدتِ وفات گزارے گی، کیوں کہ مطلقہ بہ طلاقِ رجعی کی زوجیت دورانِ عدت باقی رہتی ہے، گویا یہ ایسا ہی ہوا کہ کسی عورت کے نکاح میں ہوتے ہوئے اس کے شوہر کا انتقال ہوجائے، اور ایسی صورت میں اس پر عدتِ وفات لازم ہوتی ہے۔

اور اگر شوہر نے طلاق بائن  دی ہو یا تین طلاقیں دے دی  ہوں تو  اس میں یہ دیکھا جائے گا کہ یہ عورت مرحوم شوہر کی وارث بن رہی ہے یانہیں؟ اگر وارث نہیں بن رہی ہے، یعنی اسے حالتِ صحت میں شوہر نے طلاق دی تھی تو  اس صورت میں اس پر عدتِ وفات لازم نہ ہوگی؛ بلکہ صرف عدتِ طلاق گزارے گی۔  اور اگر وہ وارث بن رہی ہے، مثلاً اسے مرض الوفات میں طلاق دی گئی ہے، تو اس صورت میں اس پر عدتِ طلاق اور عدتِ وفات میں جو لمبی ہو وہ عدت گزارنا لازم ہوگا۔

باقی مرحوم شوہر کی میراث میں مطلقہ کا حق وحصہ ہونے میں یہ تفصیل ہے:

اگر شوہر نے حالتِ صحت یا حالتِ مرض میں بیوی کے مطالبہ کے بغیر طلاقِ رجعی دی ہو تو  عدت میں شوہر کے انتقال کی صورت میں  بیوی  شوہر  کی میراث میں سے حصہ دار ہوگی۔

 اور اگر  شوہر نے  حالتِ صحت میں طلاقِ بائن دی ہو یا تین طلاقیں دے دی ہوں تو  بیوی میراث کی حق دار نہیں ہوگی۔

 اور اگر حالتِ مرض میں طلاقِ بائن یا مغلظہ دی ہو  اور عدت میں اسی مرض کی وجہ سے شوہر کا انتقال ہوگیا تو  یہ عورت میراث کی حق دار ہوگی۔

اور اگر شوہر نے بیوی کے مطالبہ پر طلاقِ بائن دی ہو،  خواہ حالتِ مرض ہی میں کیوں نہ ہو،  تب بھی بیوی میراث کی حق دار نہیں ہوگی۔

اور ان سب صورتوں میں اگر عدت گزرجائےاور اس کے بعد شوہر کا انتقال ہو  تو بھی بیوی میراث کی حق دار نہیں ہوگی۔

بدائع الصنائع في ترتيب الشرائع (3/ 200):
"إذا طلق امرأته ثم مات، فإن كان الطلاق رجعيًا انتقلت عدتها إلى عدة الوفاة سواء طلقها في حالة المرض أو الصحة وانهدمت عدة الطلاق، وعليها أن تستأنف عدة الوفاة في قولهم جميعاً؛ لأنها زوجته بعد الطلاق إذ الطلاق الرجعي لايوجب زوال الزوجية، وموت الزوج يوجب على زوجته عدة الوفاة؛ لقوله تعالى: {والذين يتوفون منكم ويذرون أزواجًا يتربصن بأنفسهن أربعة أشهر وعشرًا} [البقرة: 234] كما لو مات قبل الطلاق، وإن كان بائنًا أو ثلاثًا فإن لم ترث بأن طلقها في حالة الصحة لاتنتقل عدتها؛ لأن الله تعالى أوجب عدة الوفاة على الزوجات بقوله عز وجل: {والذين يتوفون منكم ويذرون أزواجًا يتربصن} [البقرة: 234] وقد زالت الزوجية بالإبانة، والثلاث فتعذر إيجاب عدة الوفاة فبقيت عدة الطلاق على حالها.
وإن ورثت بأن طلقها في حالة المرض ثم مات قبل أن تنقضي العدة فورثت اعتدت بأربعة أشهر وعشر، فيها ثلاث حيض، حتى أنها لو لم تر في مدة الأربعة أشهر، والعشر ثلاث حيض تستكمل بعد ذلك، وهذا قول أبي حنيفة، ومحمد، وكذلك كل معتدة، ورثت".

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (3/ 386):
"(فار بالطلاق) خبر من، و (لايصح تبرعه إلا من الثلث فلو أبانها) وهي من أهل الميراث علم بأهليتها أم لا، كأن أسلمت أو أعتقت ولم يعلم (طائعًا) بلا رضاها، فلو أكره أو رضيت لم ترث ولو أكرهت على رضاها أو جامعها ابنه مكرهة ورثت (وهو كذلك) بذلك الحال (ومات) فيه، فلو صح ثم مات في عدتها لم ترث (بذلك السبب) موته (أو بغيره) كأن يقتل المريض أو يموت بجهة أخرى في العدة للمدخولة (ورثت هي) منه لا هو منها لرضاه بإسقاطه حقه. وعند أحمد ترث بعد العدة ما لم تتزوج بآخر. (وكذا) ترث (طالبة رجعية) أو طلاق فقط (طلقت) بائنا (أو ثلاثا) لأن الرجعي لا يزيل النكاح حتى حل وطؤها، ويتوارثان في العدة مطلقًا، وتكفي أهليتها للإرث وقت الموت، بخلاف البائن (وكذا) ترث (مبانة قبلت) أو طاوعت (ابن زوجها) لمجيء الحرمة ببينونته.
(قوله: فلو أبانها) أي بواحدة أو أكثر ولم يقل أو طلقها رجعيًا كما قال في الكنز لما قال في النهر، وعندي أنه كان ينبغي حذف الرجعي من هذا الباب؛ لأنها فيه ترث، ولو طلقها في الصحة ما بقيت العدة، بخلاف البائن فإنها لاترثه إلا إذا كان في المرض. وقد أحسن القدوري في اقتصاره على البائن، ولم أر من نبه على هذا اهـ قال ط: والطلاق ليس بقيد، بل كذلك لو أبانها بخيار بلوغه أو تقبيله أمها أو بنتها أو ردته، كما في البدائع، وكأنه كنى به عن كل فرقة جاءت من قبله حموي اهـ لكن هذا في قول الكنز: طلقها، أما قول المصنف: أبانها، لايحتاج إلى دعوى الكناية، (قوله: وهي من أهل الميراث) أي من وقت الطلاق إلى وقت الموت، كما سيوضحه الشارح".

الفتاوى الهندية (1/ 462):
"قال الخجندي: الرجل إذا طلق امرأته طلاقًا رجعيًّا في حال صحته أو في حال مرضه برضاها أو بغير رضاها ثم مات وهي في العدة فإنهما يتوارثان بالإجماع، وكذا إذا كانت المرأة كتابيةً أو مملوكةً وقت الطلاق فأسلمت في العدة أو أعتقت في العدة فإنها ترث، كذا في السراج الوهاج.

ولو طلقها طلاقًا بائنًا أو ثلاثًا ثم مات وهي في العدة فكذلك عندنا ترث، ولو انقضت عدتها ثم مات لم ترث، وهذا إذا طلقها من غير سؤالها، فأما إذا طلقها بسؤالها فلا ميراث لها، كذا في المحيط".  فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144003200317

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں