ایک آدمی دوسرے آدمی کو مضاربت کے لیے پیسے دے دے نصف پر یا ثلث پر، پھر مضارب ان پیسوں سے کوئی چیز خرید لے، اور اس چیز کو آگے فروخت کرنے سے پہلے اس کے مارکیٹ ریٹ کا اندازا لگالے کہ یہ اتنے میں فروخت ہوگی اور اس قدر منافع ہوگا، اس کے بعد یہ مضارب وہ نفع مالک کو دے دے اپنی طرف سے، لیکن ابھی تک اس نے وہ چیز فروخت کی نہیں ہے؛ تو کیا مضارب اس طرح مالک کو ایڈوانس منافع دے سکتا ہے یا نہیں؟ مدلل جواب عنایت فرمائیں!
مضاربت میں نفع کا استحقاق، مضاربت کا مال فروخت کرنے کے بعد ہوتا ہے، لہذا مضارب کا مضاربت کے مال کو فروخت کرنے سے پہلے اندازے سے رب المال کو نفع دینا درست نہیں ہے، بلکہ فروخت کرنےکے بعد جتنا نفع ہوگا اس نفع میں دونوں طے شدہ نفع کے تناسب سے حق دار ہوں گے، ہاں مضارب یہ پیشگی رقم رب المال کو قرض کے طور پر دے سکتا ہے، بعد ازاں مضاربت کا مال فروخت کرنے کے بعد جتنا نفع ہو اس میں رب المال کا حصہ اگر اس کو دیے ہوئے قرض سے زیادہ ہو تو باقی رقم اس کو دی جائے گی، اگر اس سےکم ہو تو رب المال قرض کی باقی رقم مضارب کے حوالہ کرے گا۔
الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (5/ 646):
"(وحكمها) أنواع؛ لأنها (إيداع ابتداء) ... (وتوكيل مع العمل) لتصرفه بأمره (وشركة إن ربح وغصب ..." الخ
الفتاوى الهندية (4/ 285):
"فهي عبارة عن عقد على الشركة في الربح بمال من أحد الجانبين والعمل من الجانب الآخر حتى لو شرط الربح كله لرب المال كان بضاعةًُ ولو شرط كله للمضارب كان قرضاً هكذا في الكافي. فلو قبض المضارب المال على هذا الشرط فربح أو وضع أو هلك المال بعد ما قبضه المضارب قبل أن يعمل به كان الربح للمضارب والوضيعة والهالك عليها، كذا في المحيط". فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144004201572
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن