بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

10 شوال 1445ھ 19 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

مشرکین سے نکاح کے متعلق ایک اشکال اور جواب اور غلط فہمی کا ازالہ


سوال

آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی بیٹی کا نکاح ابو جہل کے بیٹے کے ساتھ ہوا تھا؛ حال آں کہ قرآن میں مشرکین کے ساتھ نکاح کرنا حرام قرار دیا ہے، اس بارے میں کچھ تفصیل بتادیں کہ کس سال مشرکین کے ساتھ نکاح حرام ہوا تھا؟

جواب

نبی کریمﷺ کی کوئی صاحب زادی ابو جہل کے بیٹے کے نکاح میں نہیں تھیں، بلکہ نبی کریمﷺ کی دو صاحب زادیاں، حضرت رقیہ  اور حضرت ام کلثوم  رضی اللہ عنہما ابو لہب کے دو بیٹوں عتبہ اور عتیبہ کے نکاح میں تھیں، اور اب تک رخصتی نہیں ہوئی تھی۔  بعثت کے بعد ابتدا  ہی میں جب نبی کریمﷺ نے اپنے قبیلے والوں کو جمع کرکے انہیں اسلام کی دعوت دی تھی، تو  ابو لہب نے نبی کریمﷺ پر اعتراض کیا تھا،  جس پر سورۂ لہب نازل ہوئی۔ اس سورت کے نازل ہونے کے بعد ابو لہب نے اپنے دونوں بیٹوں کو  نبی کریمﷺ کی بیٹیوں سے فرقت کا حکم دیا تھا، اور انہوں نے آپ ﷺ کی صاحب زادیوں کو اپنے نکاح سے نکال دیا تھا۔ مسلمانوں کے لیے اس وقت تک مشرک مردوں سے نکاح کروانا یا مشرکہ عورتوں سے نکاح کرنا حرام قرار نہیں دیا گیا تھا، بلکہ اس کے کئی سال بعد تک، مکمل مکی دور میں بھی یہ حکم نازل نہیں ہوا،  مدینہ منورہ کی طرف ہجرت کے بعد سورۂ بقرہ میں مشرکین سے نکاح کی ممانعت قرآن پاک میں آئی؛  معلوم ہوا کہ مذکورہ حکم بعد کا ہے۔

المواهب اللدنية بالمنح المحمدية (1 / 480):
"وكانت رقية تحت عتبة بن أبي لهب، وأختها أم كلثوم تحت أخيه عتيبة، فلما نزلت تَبَّتْ يَدا أَبِي لَهَبٍ  قال لهما أبوهما- أبو لهب-: رأسي من رأسكما حرام إن لم تفارقا ابنتي محمد، ففارقاهما ولم يكونا دخلا بهما.
فتزوج عثمان بن عفان رقية بمكة، وهاجر بها الهجرتين إلى أرض الحبشة، وكانت ذات جمال رائع. وذكر الدولابى أن تزويجه بها كان فى الجاهلية، وذكر غيره ما يدل على أنه كان بعد إسلامه".
 فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144105200449

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں