بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

7 شوال 1445ھ 16 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

مسلمان کا غیر مسلم کو قرآن مجید دینا / قرآن کو بلاوضو چھونا


سوال

کیا قرآن کو ہاتھ میں پکڑنے اور تلاوت کرنے کے لیے با وضو ہونا ضروری ہے، اگر کوئی غیر مسلم قران کا نسخہ طلب کرے تو کیا کرنا چاہیے؛ کیوں کہ جب تک وہ قرآن کا مطالعہ نہیں کرے گا تو قرآن کے  پیغام کو کیسے سمجھے گا؟  اور غیر مسلم اسلام لانے سے پہلے پاک بھی نہیں ہوتا۔

جواب

بغیر وضو کے قرآنِ کریم کو چھونا جائز نہیں ہے، یہی جمہور علما ء کامسلک ہے ۔ سورہ واقعہ کی آیت: { لَايَمَسُّهٗٓ اِلَّا الْمُطَهَّرُوْنَ} ترجمہ: ’’جسے بغیر پاکوں کے اور کوئی نہیں چھوتا‘‘  کی تفسیر میں حضر ت مولانا مفتی محمد شفیع صاحب رحمہ اللہ لکھتے ہیں:

’’بعض حضرات مفسرین نے فرمایا کہ قرآن سے مراد وہ مصحف ہے جو ہمارے ہاتھوں میں ہے اور مطهرونسے مراد وہ لوگ ہیں جو نجاستِ ظاہری اور معنوی یعنی حدثِ اصغر و اکبر سے پاک ہوں، حدثِ اصغر کے معنی بے وضو ہونے کے ہیں، اس کا ازالہ وضو کرنے سے ہو جاتا ہے اور حدثِ اکبر جنابت اور حیض و نفاس کو کہا جاتا ہے جس سے پاکی کے لیے غسل ضروری ہے، یہ تفسیر حضرت عطاء، طاؤس، سالم اور حضرت محمد باقر سے منقول ہے۔ (روح) اس صورت میں جملہ’’لایمسه‘‘  اگرچہ جملہ خبریہ ہے، مگر اس خبر کو بحکمِ انشاء یعنی نہی و ممانعت کے معنی میں قرار دیا جائے گا اور مطلب آیت کا یہ ہوگا کہ مصحفِ قرآن کو چھونا بغیر طہارت کے جائز نہیں اور طہارت کے مفہوم میں یہ بھی داخل ہے کہ ظاہری نجاست سے بھی اس کا ہاتھ پاک ہو اور بے وضو بھی نہ ہو اور حدثِ اکبر یعنی جنابت بھی نہ ہو ، قرطبی نے اسی تفسیر کو اظہر فرمایا ہے، تفسیر مظہری میں اسی کی ترجیح پر زور دیا ہے۔

حضرت فاروق اعظم رضی اللہ عنہ  کے اسلام لانے کے واقعہ میں جو مذکور ہے کہ انہوں اپنی بہن کو قرآن پڑھتے ہوئے پایا تو اوراق قرآن کو دیکھنا چاہا، ان کی بہن نے یہی آیت پڑھ کر اوراقِ قرآن ان کے ہاتھ میں دینے سے انکار کیا کہ اس کو پاک لوگوں کے سوا کوئی نہیں چھو سکتا، فاروقِ اعظم نے مجبور ہو کر غسل کیا، پھر یہ اوراق پڑھے، اس واقعہ سے بھی اسی آخری تفسیر کی ترجیح ہوتی ہے اور روایاتِ حدیث جن میں غیر طاہر کو قرآن کے چھونے سے منع کیا گیا ہے ، ان روایات کو بھی بعض حضرات نے اس آخری تفسیر کی ترجیح کے لیے  پیش کیا ہے۔

مگر چوں کہ اس مسئلے میں حضرت ابن عباس اور حضرت انس  رضی اللہ عنہم وغیرہ کا اختلاف ہے جو اوپر آ چکا ہے، اس لیے بہت سے حضرات نے بے وضو قرآن کو ہاتھ لگانے کی ممانعت کے مسئلے میں آیت مذکورہ سے استدلال چھوڑ کر صرف روایات حدیث کو پیش کیا، (روح المعانی)  وہ احادیث یہ ہیں:

امام مالک نے موطأ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا وہ مکتوبِ گرامی نقل کیا ہے جو آپ نے حضرت عمرو بن حزم کو لکھا تھا ، جس میں ایک جملہ یہ بھی ہے ’’لایمس القران إلا طاهر‘‘ (ابن کثیر) یعنی قرآن کو وہ شخص نہ چھوئے جو طاہر نہ ہو ۔

اور روح المعانی میں روایت مسند عبدالرزاق، ابن ابی داؤد اور ابن المنذر سے بھی نقل کی ہے اور طبرانی و ابن مردویہ نے حضرت عبداللہ بن عمر سے روایت کیا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’لایمس القران إلا طاهر‘‘ (روح المعانی) یعنی قرآن کو ہاتھ نہ لگائے بجز اس شخص کے جو پاک ہو ۔

روایاتِ مذکورہ کی بنا پر جمہور امت اور ائمۂ اربعہ کا اس پر اتفاق ہے کہ قرآنِ کریم کو ہاتھ لگانے کے لیے طہارت شرط ہے، اس کے خلاف گناہ ہے، ظاہری نجاست سے ہاتھ کا پاک ہونا، باوضو ہونا، حالتِ جنابت میں نہ ہونا سب اس میں داخل ہے، حضرت علی مرتضیٰ، ابن مسعود، سعد بن ابی وقاص، سعید ابن زید، عطاء اور زہری، نخعی ، حکم، حماد ، امام مالک، شافعی، ابو حنیفہ رحمہم اللہ سب کا یہی مسلک ہے‘‘۔

باقی غیر مسلم کو قرآن کی تعلیم دینا کہ وہ اس کی ہدایت کا ذریعہ بن جائے یہ جائز ہے، البتہ مسلمان کا اپنے اختیار سے غیر مسلم کو قرآن دینا منع ہے، ہاں اگر غیر مسلم غسل کرلے تو مسلمان اس کو قرآن دے سکتا ہے، اور اگر غیر مسلم خود اپنے طور پر قرآن بغیر وضو پڑھ لے، اور مسلمان اس کو نہ دے تو اس کا گناہ مسلمان کو نہیں ہوگا۔

البحر الرائق شرح كنز الدقائق (8 / 231):
"وفي الذخيرة: إذا قال الكافر من أهل الحرب أو من أهل الذمة: علّمني القرآن فلا بأس بأن يعلمه ويفقهه في الدين، قال القاضي علي السغدي: إلا أنه لايمس المصحف، فإن اغتسل ثم مسه فلا بأس به".

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (1 / 177):
"ويمنع النصراني من مسّه، وجوّزه محمد إذا اغتسل، ولا بأس بتعليمه القرآن والفقه عسى يهتدي. 

(قوله: ويمنع النصراني) في بعض النسخ الكافر، وفي الخانية: الحربي أو الذمي.
(قوله: من مسه) أي المصحف بلا قيده السابق.
(قوله: وجوزه محمد إذا اغتسل) جزم به في الخانية بلا حكاية خلاف. قال في البحر: وعندهما يمنع مطلقًا". 
 فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144106200886

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں