بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

11 شوال 1445ھ 20 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

مسلسل نجاست نکلنے اور کم زوری کی وجہ سے حرکت نہ کر سکنے والے مریض کے وضو اور نماز کا حکم


سوال

کسی مریض کو اگر ضعف ونقاہت کی وجہ سے حرکت بھی مشکل ہو اور نجاست بھی خارج ہوتی رہتی ہو تو اس کے لیے وضو اور نماز کا کیا حکم ہے؟

جواب

اگر کوئی مریض ایسا ہو جس کی نجاست ہر وقت خارج ہوتی رہتی ہو  اور کسی ایک نماز کا مکمل وقت اس حالت میں گزرے کہ ناپاکی سے طہارت حاصل کرکے باوضو ہوکر وہ اس وقت کی فرض نماز بھی ناپاکی نکلے بغیر ادا نہ کرسکے تو ایسا شخص  شرعی معذور کہلائے گا، اور معذور کا حکم یہ ہے کہ ہر فرض نماز کے وقت وضو کرلیا کرے  اور پھر اس وضو سے اس ایک وقت میں جتنی چاہے فرائض اور نوافل ادا کر لےاور تلاوتِ قرآنِ کریم کرلے،اس ایک وقت کے درمیان میں جتنی بھی نجاست نکل آئے وہ پاک ہی رہے گا بشرطیکہ کوئی اور سبب وضو کوتوڑنے کانہ پایا جائے،  یہاں تک کہ وقت ختم ہوجائے، یعنی جیسے ہی اس فرض نماز کا وقت ختم ہوگا تو اس  کا وضو بھی ختم ہوجائے گا اور پھر اگلی نماز کے لیے دوبارہ وضو کرنا ہوگا۔ البتہ بعد میں کبھی کسی نماز کا مکمل وقت وہ نجاست خارج ہوئے بغیر گزر گیا جس کی وجہ سے معذور ٹھہرایا گیا تھا تو یہ شرعی معذور نہیں رہے گا، دوبارہ شرعی معذور بننے کے لیے مذکورہ تفصیل ہوگی۔

اور  اگر کسی بھی نماز کا مکمل وقت نجاست نکلتے ہوئے نہ گزرے، بلکہ درمیان میں اتنا وقفہ ہوجاتا ہو  کہ جس میں فرض نماز ادا کی جاسکتی ہو تو ایسا شخص معذور نہیں کہلائے گا اور درج بالا حکم اس کے لیے نہیں ہوگا، ایسا شخص پاکی کا اہتمام کرکے یا اس کی بیوی اسے پاک کرواکر نماز کا اہتمام کروائے۔

پھر جو نجاست  کپڑوں پر لگ جائے تو اس صورت میں یہ دیکھا جائے گا کہ وہ کس تسلسل سے نکل رہی ہے، اگر نجاست کے خروج کا تسلسل ایسا ہو کہ اگر نماز سے پہلے کپڑوں کو دھویا جائے تو نماز کے دوران پھر نجاست کے خروج کی وجہ سے کپڑے گندے ہو جائیں گے تو  اس صورت میں اس نجاست کا دھونا ضروری نہیں ہے، اگر چہ مقدارِ درہم سے متجاوز ہو جائیں۔

اور اگر نجاست کے خروج کا تسلسل ایسا ہو کہ اگر نماز سے پہلے دھو لیا جائے تو دورانِ نماز وقفہ ہو گا اور نماز کے دوران کپڑے ناپاک نہیں ہوں گے تو اس صورت میں نماز سے پہلے اس نجاست کا دھونا واجب ہوگا، یا ایسا شخص نماز کے لیے الگ پاک کپڑے رکھے۔

پھر جو شخص کم زوری کی وجہ سے حرکت نہ کر سکتا ہو تو ایسے شخص کے لیے  حکم یہ ہے کہ وہ بیٹھ کر رکوع سجدے کے ساتھ  نماز ادا کرے، اگر بیٹھ کر رکوع سجود  نہیں کرسکتا، البتہ  بیٹھ کر رکوع و سجدہ اشارے سے کرسکتاہے تو قبلہ رخ بیٹھ کر نماز پڑھے اور رکوع و سجود  اشارے سے کرے، سجدے کا اشارہ رکوع کے مقابلے میں زیادہ کرے۔  اگر بیٹھ کر رکوع سجود  اشارے سے بھی نہ کرسکے تو لیٹ کر اشارے سے نماز پڑھے گا، اور رکوع اور سجدے کے لیے سر کو جھکا کر اشارہ کرے گا۔ لیٹ کر پاؤں قبلہ کی جانب کرلے اور سر کو کسی تکیہ پر رکھ لے، یا دائیں کروٹ پر لیٹ جائے اوررخ قبلہ کی جانب کرلے۔

اگر ضعف اس قدر بڑھ جائے کہ سر کے اشارے سے نماز پڑھنا بھی ممکن نہ ہو تو نماز کو مؤخر کر دے اور جب افاقہ ہو تو اس وقت نماز پڑھ لے۔ یہ حکم اس وقت ہے جب اس حالت میں پانچ سے زائد نمازیں قضا نہ ہوئی ہوں، اگر پانچ سے زائد نمازیں اسی حالت میں قضا ہو جائیں تو  ان کی قضا بھی ساقط ہو جائے گی۔

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (1/ 305):

’’(وصاحب عذر من به سلس) بول لا يمكنه إمساكه (أو استطلاق بطن أو انفلات ريح أو استحاضة) أو بعينه رمد أو عمش أو غرب، وكذا كل ما يخرج بوجع ولو من أذن وثدي وسرة (إن استوعب عذره تمام وقت صلاة مفروضة) بأن لايجد في جميع وقتها زمناً يتوضأ ويصلي فيه خالياً عن الحدث (ولو حكماً)؛ لأن الانقطاع اليسير ملحق بالعدم (وهذا شرط) العذر (في حق الابتداء، وفي) حق (البقاء كفى وجوده في جزء من الوقت) ولو مرةً (وفي) حق الزوال يشترط (استيعاب الانقطاع) تمام الوقت (حقيقة)؛ لأنه الانقطاع الكامل. ونحوه (لكل فرض) اللام للوقت كما في - {لدلوك الشمس} [الإسراء: 78]- (ثم يصلي) به (فيه فرضاً ونفلاً) فدخل الواجب بالأولى (فإذا خرج الوقت بطل) أي: ظهر حدثه السابق، حتى لو توضأ على الانقطاع ودام إلى خروجه لم يبطل بالخروج ما لم يطرأ حدث آخر أو يسيل كمسألة مسح خفه. وأفاد أنه لو توضأ بعد الطلوع ولو لعيد أو ضحى لم يبطل إلا بخروج وقت الظهر.(وإن سال على ثوبه) فوق الدرهم (جاز له أن لا يغسله إن كان لو غسله تنجس قبل الفراغ منها) أي: الصلاة (وإلا) يتنجس قبل فراغه (فلا) يجوز ترك غسله، هو المختار للفتوى، وكذا مريض لا يبسط ثوبه إلا تنجس فورا له تركه (و) المعذور (إنما تبقى طهارته في الوقت) بشرطين (إذا) توضأ لعذره و (لم يطرأ عليه حدث آخر، أما إذا) توضأ لحدث آخر وعذره منقطع ثم سال أو توضأ لعذره ثم (طرأ) عليه حدث آخر، بأن سال أحد منخريه أو جرحيه أو قرحتيه ولو من جدري ثم سال الآخر (فلا) تبقى طهارته‘‘.

ولمافي الهندیة(1/40,41):

’’شرط ثبوت العذر ابتداءً أن یستوعب استمراره وقت الصلاة کاملاً، وهو الأظهر، کالانقطاع لایثبت مالم یستوعب الوقت کله ... المستحاضة ومن به سلس البول … یتوضؤن لوقت کل صلاة، ویصلون بذلک الوضوء في الوقت ماشاؤا من الفرائض و النوافل … ویبطل الوضوء عند خروج وقت المفروضة بالحدث السابق … إذا کان به جرح سائل وقد شد علیه خرقةً فأصابها الدم أکثر من قدر الدرهم، أو أصاب ثوبه إن کان بحال لوغسله یتنجس ثانیاً قبل الفراغ من الصلاة، جاز أن لا یغسله وصلی قبل أن یغسله وإلا فلا، هذا هو المختار‘‘

مجمع الأنهر في شرح ملتقى الأبحر (1/ 154):
(وإن تعذر الركوع أو السجود أومأ برأسه) أي يشير إلى الركوع والسجود (قاعدا) إن قدر على القعود لأنه وسعه (وجعل سجوده) بالإيماء (أخفض من ركوعه) لأن نفس السجود أخفض من الركوع، فكذا الإيماء به (ولايرفع إلى وجهه شيئًا للسجود) روي «أن النبي عليه الصلاة والسلام عاد مريضًا فرآه يصلي على وسادة فأخذها فرمى بها، وأخذ عودًا ليصلي عليه فأخذه فرمى به، وقال صل على الأرض إن استطعت وإلا فأوم واجعل سجودك أخفض من ركوعك»، (فإن فعل) ذلك (وهو يخفض رأسه صح إيماؤه) لوجود الإيماء (وإلا) أي وإن لم يخفضه (فلا) يصح لعدم الإيماء.
وفي الشمني لو كان المريض يصلي بركوع وسجود فرفع إليه شيء فسجد عليه قالوا: إن كان إلى السجود أقرب منه إلى القعود جاز وإلا فلا.
وفي القهستاني لو سجد على شيء مرفوع موضوع على الأرض لم يكره ولو سجد على دكان دون صدره يجوز كالصحيح لكن لو زاد يومئ ولا يسجد عليه.

(وإن تعذر القعود أومأ) بالركوع والسجود (مستلقيًا) على ظهره ووضع وسادة تحت رأسه حتى يكون شبه القاعد ليتمكن من الإيماء (ورجلاه إلى القبلة أو) أومأ (مضطجعًا ووجهه إليها) أي إلى القبلة ورجلاه نحوه يسارها أو يمناها، والأول أولى، خلافًا للشافعي.
وفي المنية: الأظهر أن الاضطجاع لايجوز لقوله عليه الصلاة والسلام: «يصلي المريض قائمًا فإن لم يستطع فقاعدًا وإن لم يستطع فعلى قفاه يومئ إيماء وإن لم يستطع فالله أحق بقبول العذر منه»".

مجمع الأنهر في شرح ملتقى الأبحر (1/ 154):
"(وإن تعذر الإيماء برأسه أخرت) الصلاة فلا سقط عنه بل يقضيها إذا قدر عليها ولو كانت أكثر من صلاة يوم وليلة إذا كان مضيقًا، وهو الصحيح، كما في الهداية. وفي الخانية: الأصح أنه لايقضي أكثر من يوم وليلة كالمغمى عليه، وهو ظاهر الرواية، وهذا اختيار فخر الإسلام وشيخ الإسلام. وفي الخلاصة: وهو المختار؛ لأن مجرد العقل لايكفي لتوجه الخطاب. وفي التنوير: وعليه الفتوى، فإن مات بلا قضاء فلا شيء عليه، كما في الشمني (ولايومئ بعينيه ولا بحاجبيه ولا بقلبه) لما روينا، وفيه خلاف زفر".
 فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144107200957

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں