بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

10 شوال 1445ھ 19 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

مسجد میں عورتوں کی نماز کی جگہ کا صفوں کے ساتھ اتصال کا حکم


سوال

اگر مسجد کی انتظامیہ نے عورتوں کے لیے بھی نماز کی جگہ بنائی ہو جہاں عورتیں جماعت کے ساتھ نماز پڑھتی ہوں تو عورتوں کی جماعت کے صحیح ہونے کے لیے فاصلے کا اعتبار ہو گا یا نہیں؟ مثلاً  ایک مسجد میں مردوں کی نماز کی جگہ ہے، اس کے بعد مردوں اور عورتوں کا الگ الگ طہارت خانہ ہے،  پھر عورتوں کی نماز کی جگہ ہے۔  ایسی صورت میں نماز کا کیا حکم ہے؟

جواب

صورتِ  مسئولہ میں اگر دونوں جگہوں  کے درمیان دو صف (تقریباً  آٹھ فٹ)کے بقدر یا اس سے زیادہ  فاصلہ ہے  تو  ایسی صورت میں عورتوں کی اقتدا  درست نہیں  ہو گی، سوال میں ذکر کردہ بیان (کہ اس کے بعد مردوں اور عورتوں کا الگ الگ طہارت خانہ ہے) کے مطابق بظاہر مسجد اور عورتوں کے مصلے کے درمیان دو صف سے زیادہ فاصلہ ہے، لہٰذا یہ فاصلہ اقتدا درست ہونے سے مانع ہے۔  البتہ اگر عورتوں کی صفیں بھی مسجدِ شرعی  ہی میں ہیں تو پھر عورتوں کی نماز درست ہے۔

فتاوی شامی میں ہے :

"(ويمنع من الاقتداء) صف من النساء بلا حائل قدر ذراع أو ارتفاعهن قدر قامة الرجل مفتاح السعادة أو (طريق تجري فيه عجلة) آلة يجرها الثور (أو نهر تجري فيه السفن) ولو زورقاً ولو في المسجد (أو خلاء) أي فضاء (في الصحراء) أو في مسجد كبير جدا كمسجد القدس (يسع صفين) فأكثر إلا إذا اتصلت الصفوف فيصح مطلقاً.

 (قوله: تجري فيه عجلة) أي تمر، وبه عبر في بعض النسخ. والعجلة بفتحتين. وفي الدرر: هو الذي تجري فيه العجلة والأوقار اهـ وهو جمع وقر بالقاف. قال في المغرب: وأكثر استعماله في حمل البغل أو الحمار كالوسق في حمل البعير (قوله: أو نهر تجري فيه السفن) أي يمكن ذلك، ومثله يقال في قوله تمر فيه عجلة ط. وأما البركة أو الحوض، فإن كان بحال لو وقعت النجاسة في جانب تنجس الجانب الآخر، لا يمنع وإلا منع، كذا ذكره الصفار إسماعيل عن المحيط. وحاصله أن الحوض الكبير المذكور في كتاب الطهارة يمنع أي ما لم تتصل الصفوف حوله كما يأتي (قوله: ولو زورقاً) بتقديم الزاي: السفينة الصغيرة كما في القاموس. وفي الملتقط: إذا كان كأضيق الطريق يمنع، وإن بحيث لا يكون طريق مثله لا يمنع سواء كان فيه ماء أو لا...... (قوله: ولو في المسجد) صرح به في الدرر والخانية وغيرهما (قوله: أو خلاء) بالمد: المكان الذي لا شيء به قاموس". (1/584، 585، باب الامامۃ، کتاب الصلوٰۃ، ط: سعید)

نیز واضح رہے کہ عورتوں  کے لیے   جماعت کے ساتھ  نماز پڑھنے کے لیے مسجد میں جانا یا گھر سے باہر کوئی  جگہ مقرر کرکے باجماعت نماز ادا کرنا مکروہ تحریمی ہے، خواہ فرض نماز ہو یا  عید کی نماز ہو یا تراویح  کی جماعت ہو۔

اس کی مزید تفصیل کے لیے درج ذیل لنک پر جامعہ کا  فتویٰ ملاحظہ فرمائیں :

عورتوں کا تراویح کے لیے مسجد جانا

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144010200400

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں