بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

10 شوال 1445ھ 19 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

مستورات کی تبلیغی جماعت کی ممانعت کی دلیل


سوال

آپ کے دار الافتاء سے یہ فتوی جاری ہوا ہے:

’’ہمارے دار الافتاء (جامعہ علوم اسلامیہ علامہ بنوری ٹاؤن) کی رائے میں مستورات کی تبلیغی جماعتیں نکالنا شرعی و فقہی اعتبار سے درست نہیں ہے‘‘۔ فقط واللہ اعلم

 کیا آپ کے پاس کوئی دلیل ہے ؟ کیوں کہ اکثر دیکھا ہے کہ مستورات کی جماعتیں بھی نکلتی ہیں ۔

جواب

قرآنِ  کریم میں عورتوں کو بلا ضرورتِ  شدیدہ گھر سے باہر نکلنے سے منع کیا گیا ہے، ارشاد باری تعالی ہے:

{وَقَرْنَ فِي بُيُوتِكُنَّ وَلَا تَبَرَّجْنَ تَبَرُّجَ الْجَاهِلِيَّةِ الْأُولَى} [الأحزاب : 33]

ترجمہ: تم اپنے گھر میں قرار سے رہو اور قدیم زمانہ جاہلیت کے دستور کے موافق مت پھرو۔(بیان القرآن)

            یہی وجہ ہے کہ عورت کے لیے نبی کریم ﷺ نے گھر میں نماز پڑھنا مسجد میں نماز پڑھنے سے بہتر قراردیا،  نبی کریم ﷺ سے جب عورتوں نے مردوں کی جہاد میں شرکت اور فضائل حاصل کرنے اور ان فضائل کو حاصل کرنے کی تمنا ظاہر کی تو آپ ﷺ نے فرمایا کہ تم میں سے جو گھر میں بیٹھی رہے وہ مجاہد کا اجر پائے گی۔    

نیز عورتوں کی جماعت کے نکلنے  کی مشروط اجازت دینا بھی فتنوں کا پیش خیمہ ثابت ہوسکتاہے، لہذا اس پر فتن دور میں مشروط اجازت بھی نہیں دی جائے گی۔

مزید تفصیل کے لیے درج ذیل فتوی بھی ملاحظہ کیجیے:

عورتوں کی تبلیغی جماعت کی شرعی حیثیت اور دارالعلوم دیوبند کا فتوی

تفسير ابن كثير / دار طيبة - (6 / 409):

"وقوله: { وَقَرْنَ فِي بُيُوتِكُنَّ } أي: الزمن بيوتكن فلا (1) تخرجن لغير حاجة. ومن الحوائج الشرعية الصلاة في المسجد بشرطه، كما قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: "لا تمنعوا إماء الله مساجد الله، وليخرجن وهن تَفِلات" وفي رواية: "وبيوتهن خير لهن".

وقال الحافظ أبو بكر البزار: حدثنا حميد بن مَسْعَدة حدثنا أبو رجاء الكلبي، روح بن المسيب ثقة، حدثنا ثابت البناني  عن أنس، رضي الله عنه، قال: جئن النساء إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم فقلن: يا رسول الله، ذهب الرجال بالفضل والجهاد في سبيل الله تعالى، فما لنا عمل ندرك به عمل المجاهدين في سبيل الله؟ فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: "من قعد -أو كلمة نحوها -منكن في بيتها فإنها تدرك عمل المجاهدين  في سبيل الله".

ثم قال: لا نعلم رواه عن ثابت إلا روح بن المسيب، وهو رجل من أهل البصرة مشهو .

وقال  البزار أيضا: حدثنا محمد بن المثنى، حدثنا عمرو بن عاصم، حدثنا همام، عن قتادة، عن مُوَرِّق، عن أبي الأحوص، عن عبد الله، عن النبي صلى الله عليه وسلم قال: "إن المرأة عورة، فإذا خرجت استشرفها الشيطان، وأقرب ما تكون بروْحَة ربها وهي في قَعْر بيتها".

ورواه الترمذي، عن بُنْدَار، عن عمرو بن عاصم، به نحوه.

وروى البزار بإسناده المتقدم، وأبو داود أيضاً، عن النبي صلى الله عليه وسلم قال: "صلاة المرأة في مَخْدعِها أفضل من صلاتها في بيتها، وصلاتها في بيتها أفضل من صلاتها في حجرتها" وهذا إسناد جيد".

  فقط و اللہ اعلم


فتوی نمبر : 144102200381

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں