بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

9 شوال 1445ھ 18 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

مسبوق کا امام کے ساتھ سلام پھیرنے اور امام کے ساتھ آخری قعدہ میں درود شریف و دعا پڑھنے کا حکم


سوال

 1۔ اگر امام کے ساتھ نماز پڑھنے میں رکعت نکل جائے اور امام کے ساتھ ایک سلام پھیر دیا، لیکن پھر یاد آ گیا کہ رکعت نکل گئی تھی تو اب رکعت پڑھنے کے بعد رکعت کے آخر میں سجدہ سہو کرنا ہوگا؟

2۔ رکعت نکل جانے کی صورت میں اکثر میں التحیات کے بعد درود شریف وغیرہ پورا پڑھ لیتا ہوں اور اکثر یاد آنے کی صورت میں رک جاتا ہوں۔ تو پھر سجدہ سہو کا کیا حکم ہے؟

جواب

1)جس شخص کی امام کے ساتھ ایک یا ایک سے زائد رکعتیں نکل جائیں اسے ’’مسبوق‘‘ کہتے ہیں، مسبوق کو چاہیے کہ امام کے سلام پھیرنے کے بعد سلام پھیرے بغیر کھڑا ہوکر اپنی چھوٹی ہوئی رکعتیں پوری کرلے ، لیکن مسبوق اگر بھول کر امام کے ساتھ ایک طرف سلام پھیر دے اور پھر فوراً  یاد آجانے پر کھڑا ہوکر اپنی رکعت پوری کرلے تو اس پر سجدہ سہو واجب ہونے یا نہ ہونے کے بارے میں ضابطہ یہ ہے کہ اگر اس نے سلام امام کے ساتھ  متصلاً پھیرا تھا، یعنی اس کے سلام کہنے کے الفاظ امام کے بالکل ساتھ ساتھ ادا ہوئے تھے، الفاظ کی ادائیگی میں امام کے مقابلے میں ذرا سی بھی تاخیر نہیں ہوئی تھی (اگرچہ عام طور سے ایسا ہونا بہت مشکل یا شاذ و نادر ہے) تو اس صورت میں اس پر سجدہ سہو واجب نہیں ہوگا، لیکن اگر مسبوق نے امام کے بالکل ساتھ متصلاً ایک طرف سلام نہ پھیرا ہو، بلکہ اس کے لفظ ’’السلام‘‘ کہنے کی ادائیگی امام کے بعد ذرا سی بھی تاخیر سے ہوئی ہو ( جیسا کہ عام طور سے ہوتا ہے) تو اس پر لازم ہے کہ وہ اپنی باقی رکعتیں پوری کرنے کے بعد آخر میں سجدہ سہو بھی کرلے، اسی طرح اگر مسبوق غلطی سے بھول کر دونوں طرف سلام پھیر نے کے بعد یاد آنے پر نماز کے منافی کوئی کام کیے بغیر باقی رکعتوں کے لیے کھڑا ہوجائے تو بھی اس پر سجدہ سہو لازم ہوجائے گا، جن صورتوں میں مسبوق پر غلطی سے امام کے ساتھ سلام پھیرنے کی وجہ سے سجدہ سہو لازم ہے ان صورتوں میں اگر اس نے سجدہ سہو نہ کیا تو  وقت کے اندر اس کی نماز واجب الاعادہ ہوگی۔

2)مسبوق کو امام کے ساتھ امام کے آخری قعدہ میں التحیات پڑھ کر خاموش ہوجانا چاہیے، درود شریف اور دعا نہیں پڑھنی چاہیے، کیوں کہ یہ مسبوق کا آخری قعدہ نہیں ہے، البتہ اگر کوئی مسبوق امام کے ساتھ آخری قعدہ میں درود شریف اور دعا پڑھ لے تو امام کی اقتدا  میں ہونے کی وجہ سے اس غلطی کی بنا پر اس پر سجدہ سہو لازم نہیں ہوگا۔

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (2/ 82):

"(قوله: والمسبوق يسجد مع إمامه) قيد بالسجود؛ لأنه لايتابعه في السلام، بل يسجد معه ويتشهد فإذا سلم الإمام قام إلى القضاء، فإن سلم فإن كان عامداً فسدت وإلا لا، ولا سجود عليه إن سلم سهواً قبل الإمام أو معه؛ وإن سلم بعده لزمه لكونه  منفرداً حينئذ، بحر، وأراد بالمعية المقارنة وهو نادر الوقوع كما في شرح المنية. وفيه: ولو سلم على ظن أن عليه أن يسلم فهو سلام عمد يمنع البناء".

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (2/ 82):

"(ومقتد بسهو إمامه إن سجد إمامه) لوجوب المتابعة (لا بسهوه) أصلاً".فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144008201287

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں