مسبوق مقتدی امام صاحب کے پہلے سلام پر کھڑا ہو جائے تو کیا کرے؟
مسبوق کو چاہیے کہ جب امام دونوں سلام پھیر چکے اور اس کا اطمینان ہوجائے کہ امام پر سجدۂ سہو لازم نہیں ہے، اس وقت وہ اپنی نماز پوری کرنے کے لیے کھڑا ہو،صرف ایک طرف سلام پھیرنے پر کھڑا نہ ہو ؛کیوں کہ ہوسکتا ہے امام کے ذمہ سجدۂ سہو واجب ہو، بہر حا ل اگر مسبوق جلدی میں کھڑا ہوگیا اور امام صاحب کے ذمہ سجدہ سہو واجب نہیں تھا تو یہ مسبوق اپنی نماز مکمل کرلے۔
اور اگر امام پہلے سلام کے بعد سجدہ سہو میں چلاگیا تو یہ مسبوق دوبارہ لوٹ کر (سلام پھیرے بغیر) امام کے ساتھ سجدۂ سہو میں شامل ہوجائے پھراپنی باقی نماز مکمل کرلے۔
الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (1/ 597):
"(قوله: وينبغي أن يصبر) أي لايقوم بعد التسليمة أو التسليمتين، بل ينتظر فراغ الإمام بعدهما كما في الفيض والفتح والبحر. قال الزندويستي في النظم يمكث حتى يقوم الإمام إلى تطوعه أو يستند إلى المحراب إن كان لا تطوع بعدها. اهـ. قال في الحلية: وليس هذا بلازم، بل المقصود ما يفهم أن لا سهو على الإمام أو يوجد له ما يقطع حرمة الصلاة. اهـ". فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144106200137
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن