بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

14 شوال 1445ھ 23 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

مسافر کے لیے روزہ توڑنے کا حکم


سوال

1۔اگر رمضان کے مہینے میں کسی آدمی کا دن کو سفر کا اردہ ہو تو وہ روزہ رکھ لے یا چھوڑ دے؟  اگر اس نے روزہ رکھ لیا تو کیا وہ دورانِ  سفر  افطار کر سکتا ہے یانہیں؟

2۔یہاں بعض لوگ کہتے ہیں کے سفر کے دوران توڑ سکتے ہیں اور بعض کہتے ہیں کہ  نہیں توڑسکتے، ورنہ قضا اور کفارہ دونوں لازم ہیں۔

جواب

1۔  شرعی طور پر اس شخص کے لیے سفر میں روزہ چھوڑنے کی اجازت ہے جو صبح صادق کے وقت سفر میں ہو اور شرعی مسافر بن چکا ہو( یعنی شہر کی حدود سے نکل چکاہو) اب ایسے مسافر  شخص کو اپنے شہر کے حدود سے نکلنے کے بعد روزہ رکھنے یا نہ رکھنے کا اختیار ہوگا، اور نہ رکھنے کی صورت میں بعد میں اس روزہ کی قضا کرنا لازم ہوگی۔

 تاہم  اگر سفر کے دوران روزہ رکھنے  میں  سہولت ہے، دشواری نہیں  ہے تو روزہ رکھ لینا بہتر ہے، اگر روزہ رکھنے میں مشقت اور دشواری ہے تو  اس صورت میں روزہ نہ رکھنے کی بھی اجازت ہے، اور اگر شرعی سفر میں مشقت بہت زیادہ ہو (جس کا تحمل روزہ دار کے لیے مشکل ہو) تو روزہ نہ رکھنا بہترہے، بہر دو صورت بعد میں اس روزہ کی قضا کرلے۔

اور اگر کوئی شخص صبح صادق کے وقت سفر میں نہ ہو، بلکہ  اپنے علاقے میں ہو، دن میں سفر کا ارادہ ہو تو  اس پر اس دن کا روزہ رکھنا لازم ہے،   اس کے لیے روزہ چھوڑناجائز نہیں ،اگرچہ دن میں اس کا سفر میں جانےکاارادہ ہو، اس لیے کہ صبح صادق کے وقت یہ مسافر نہیں ، محض نیت سے سفر شروع نہیں ہوتا۔

2۔اگر سفرِ شرعی ہو یعنی 48 میل یا اس سے زیادہ کی مسافت کا ہو تو اس صورت میں اپنے شہر کی آبادی سے نکلنے کے بعد  مشقت کی وجہ سے مسافر نے  روزہ توڑدیا تو کفارہ لازم نہیں ہوگا، البتہ اس روزے کی قضا لازم ہوگی۔

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (2/ 431)

"ولو نوى مسافر الفطر) أو لم ينو (فأقام ونوى الصوم في وقتها) قبل الزوال (صح) مطلقاً، (ويجب عليه) الصوم (لو) كان (في رمضان)؛ لزوال المرخص (كما يجب على مقيم إتمام) صوم (يوم منه) أي رمضان (سافر فيه) أي في ذلك اليوم، (و) لكن (لا كفارة عليه لو أفطر فيهما) للشبهة في أوله وآخره.

(قوله: ويجب عليه الصوم) أي إنشاؤه حيث صح منه بأن كان في وقت النية ولم يوجد ما ينافيه، وإلا وجب عليه الإمساك كحائض طهرت ومجنون أفاق كما مر، (قوله: كما يجب على مقيم إلخ) لما قدمناه أول الفصل أن السفر لا يبيح الفطر، وإنما يبيح عدم الشروع في الصوم، فلو سافر بعد الفجر لايحل الفطر".

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (2/ 431):

"قال في البحر: وكذا لو نوى المسافر الصوم ليلاً وأصبح من غير أن ينقض عزيمته قبل الفجر ثم أصبح صائماً لايحل فطره في ذلك اليوم، ولو أفطر لا كفارة عليه. اهـ.قلت: وكذا لا كفارة عليه بالأولى لو نوى نهاراً، فقوله: ليلاً غير قيد".

الفتاوى الهندية (1/ 206):

" (منها: السفر) الذي يبيح الفطر وهو ليس بعذر في اليوم الذي أنشأ السفر فيه، كذا في الغياثية. فلو سافر نهاراً لايباح له الفطر في ذلك اليوم، وإن أفطر لا كفارة عليه بخلاف ما لو أفطر ثم سافر، كذا في محيط السرخسي". فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144012201710

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں