بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 رمضان 1445ھ 29 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

مزید بچوں کی خواہش نہ ہونے کی وجہ سے نس بندی کروانا


سوال

اگر کوئی عورت دس سال کے لیے نس بندی کروا کے حمل سے رکنے کی تدبیر کرے اور وجہ صرف یہ ہو کہ پانچ بچے ہیں، مزید نہیں چاہتی اور عن قریب بیٹی کی شادی ہونے کو ہے جس کی وجہ سے معاشرے سے حیا بھی ہے، لہذا مذکورہ صورت حال میں اس ضبطِ تولید کا کیا حکم ہے؟ آیا گناہ گار ہوگی یا نہیں؟

جواب

بلاعذر ضبطِ تولید اسلام میں منع ہے، اور عذر میں بھی کوئی ایسی صورت اپنانا قطعاً حرام ہے جس سے قوتِ تولید بالکلیہ ختم ہوجائے۔ مثلاً: رحم (بچہ دانی) نکال دینا یا حتمی نس بندی کرادینا وغیرہ۔
" فإن الاختصاء في الاٰدمي حرام". (عمدة القاري ۲۰؍۷۲)
ضرورت کے وقت ایسی مانعِ حمل تدبیروں کو اپنانے کی گنجائش ہے جو وقتی ہوں اور جب چاہیں اُنہیں ترک کرکے توالد وتناسل کا سلسلہ جاری کیا جاسکتا ہو، ایسی تدبیریں عزل کے حکم میں ہیں۔

چند اعذار ذیل میں لکھے جاتے ہیں جن کی موجودگی میں عارضی مانعِ حمل تدابیر  بلاکراہت جائز ہے:

1۔ عورت اتنی کم زور ہو  کہ حمل کا بوجھ   اٹھانے کی استطاعت نہ ہو، حمل اور درد زہ کی تکالیف جھیلنے کی سکت نہ ہو  یا بچہ کی ولادت کے بعد   شدید کم زوری اور نقاہت لاحق ہونے کا اندیشہ ہو ۔

2۔۔  دو بچوں کے درمیان اس غرض سے مناسب وقفہ کے لیے کہ بچے کو ماں کی صحیح نگہداشت مل سکے، اور دوسرے بچے کا حمل ٹھہرنے کی وجہ سے پہلے بچےکے لیے ماں کا دودھ مضر اور نقصان دہ نہ بنے۔

3۔۔ ۔ عورت بد اخلاق  اور سخت مزاج ہو اور خاوند اسے طلاق دینے کا ارادہ رکھتا ہو، اور اندیشہ ہو کہ بچہ کی ولادت کے بعد اس کی بداخلاقی میں مزید اضافہ ہوجائے گا، ایسی صورت میں بلاکراہت عزل جائز ہے۔

4۔۔۔۔  اسی طرح طویل سفر میں ہو، یا دارالحرب  میں ہونے کی وجہ سے بچے کے جانی یا ایمانی نقصان کا اندیشہ ہوتو اس صورت میں بھی عزل جائز ہے۔

5۔۔۔ ۔۔  مسلسل ولادت کی صورت میں بچوں کی تربیت میں سخت حرج کا لاحق ہونا۔

مذکورہ صورتوں میں عزل کرنے کا ایسا طریقہ اور تدبیر اختیار کرنا درست ہے کہ جس سے وقتی طور پر حمل روکا جاسکے ،اس طور پر کہ جب چاہیں دوبارہ توالد و تناسل کا سلسلہ جاری رکھا جاسکتا ہو۔ باقی آپریشن کرکے بچہ دانی  نکلوانا یا نس بندی کروانا یا کوئی ایسا طریقہ اپنانا جس سے توالد وتناسل   (بچہ پیدا کرنے) کی صلاحیت بالکل ختم ہوجائے ، شرعاً اس کی اجازت نہیں ہے۔

سوال میں جو عذر ذکر کیے گئے ہیں، شرعاً یہ عذر نہیں ہیں۔

الفتاوى الهندية (1/ 335):

"العزل ليس بمكروه برضا امرأته الحرة".
الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (3/ 175):

"(ويعزل عن الحرة بإذنها)".

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (3/ 176):
"أخذ في النهر من هذا ومما قدمه الشارح عن الخانية والكمال: أنه يجوز لها سد فم رحمها كما تفعله النساء".

"عن عائشة عن جذامة بنت وهب أخت عکاشة، قالت: حضرت رسول الله ﷺ … ثم سألوه عن "العزل"؟ فقال رسول الله ﷺ: ذلک الوأد الخفي". وزاد عبید الله في حدیثه عن المقرئ: ﴿وَاِذَا الْمَوْؤدَةُ سُئِلَتْ﴾". (صحیح مسلم، باب جواز الغیلة، وهي وطی المرضع وکراهة العزل، النسخة الهندیة ۱/۴۶۶،)

قال الملاعلي القاري:

"قیل: ذلک لایدل علی حرمة العزل، بل علی کراهته". (مرقاة المصابیح، کتاب النکاح، باب المباشرة، الفصل الأول إمدادیه ملتان ۶/۲۳۸)

"(ويعزل عن الحرة) وكذا المكاتبة، نهر بحثاً، (بإذنها)، لكن في الخانية: أنه يباح في زماننا؛ لفساده، قال الكمال: فليعتبر عذراً مسقطاً لإذنها، وقالوا: يباح إسقاط الولد قبل أربعة أشهر ولو بلا إذن الزوج، (وعن أمته بغير إذنها) بلا كراهة.
(قوله: قال الكمال) عبارته: وفي الفتاوى إن خاف من الولد السوء في الحرة يسعه العزل بغير رضاها؛ لفساد الزمان، فليعتبر مثله من الأعذار مسقطاً لإذنها. اهـ. فقد علم مما في الخانية: أن منقول المذهب عدم الإباحة، وأن هذا تقييد من مشايخ المذهب؛ لتغير بعض الأحكام بتغير الزمان، وأقره في الفتح، وبه جزم القهستاني أيضاً حيث قال: وهذا إذا لم يخف على الولد السوء؛ لفساد الزمان، وإلا فيجوز بلا إذنها. اهـ. لكن قول الفتح: فليعتبر مثله إلخ يحتمل أن يريد بالمثل ذلك العذر، كقولهم: مثلك لايبخل. ويحتمل أنه أراد إلحاق مثل هذا العذر به كأن يكون في سفر بعيد، أو في دار الحرب فخاف على الولد، أو كانت الزوجة سيئة الخلق ويريد فراقها فخاف أن تحبل، وكذا ما يأتي في إسقاط الحمل عن ابن وهبان، فافهم". 
 (فتاوی شامی(3/ 175) ط: سعید) فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144004200903

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں