بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 رمضان 1445ھ 29 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

مروجہ تسبیح کے ذریعہ ذکر کرنا کیسا ہے؟


سوال

کیا مروجہ تسبیح میں ذکر  پڑھنا صحیح ہے؟ جب کہ بعض لوگ اسے بدعت کہتے ہیں!

جواب

واضح رہے کہ ذکر و اذکار کا شمار اپنی انگلیوں پر کرنا اولی ہے، البتہ شمار کے لیے دانوں یا مروجہ تسبیح استعمال کرنا جائز ہے، صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین میں سے بعض سے کنکریوں پر شمار کرنا ثابت ہے، لہذا اسے بدعت قرار دینا درست نہیں۔

مولانا محمد یوسف لدھیانوی رحمہ اللہ ایک سوال کے جواب میں تحریر کرتے ہیں:

’’تسبیح بذاتِ خود مقصود نہیں، بلکہ ذکر کے شمار کرنے کا ذریعہ ہے، بہت سی احادیث میں یہ مضمون وارد ہوا ہے کہ فلاں ذکر اور فلاں کلمہ کو سو مرتبہ پڑھا جائے تو یہ اجر ملے گا، حدیث کے طلبہ سے یہ احادیث مخفی نہیں ہیں۔ اور ظاہر ہے کہ اس تعداد کو گننے کے لیے  کوئی نہ کوئی ذریعہ ضرور اختیار کیا جائے گا، خواہ اُنگلیوں سے گنا جائے یا کنکریوں سے، یا دانوں سے۔ اور جو ذریعہ بھی اختیار کیا جائے وہ بہرحال اس شرعی مقصد کے حصول کا ذریعہ ہوگا۔ اور جو چیز کسی مطلوبِ شرعی کا ذریعہ ہو وہ بدعت نہیں کہلاتا، بلکہ فرض کے لیے ایسے ذریعہ کا اختیار کرنا فرض، اور واجب کے لیے ایسے ذریعہ کا اختیار کرنا واجب ہے، اسی طرح مستحب کے لیے ایسے ذریعہ کا اختیار کرنا مستحب ہوگا۔ آپ جانتے ہیں کہ حج پر جانے کے لیے بحری، بری اور فضائی تینوں راستے اختیار کیے جاسکتے ہیں، لیکن اگر کسی زمانے میں ان میں سے دو راستے مسدود ہوجائیں، صرف ایک ہی کھلا ہو تو اسی کا اختیار کرنا فرض ہوگا، اور اگر تینوں راستے کھلے ہوں تو ان میں کسی ایک کو لا علی التعیین اختیار کرنا فرض ہوگا۔ اسی طرح جب تسبیحات و اذکار کا گننا عندالشرع مطلوب ہے اور اس کے حصول کا ایک ذریعہ تسبیح بھی ہے، تو اس کو بدعت نہیں کہیں گے، بلکہ دُوسرے ذرائع میں سے ایک ذریعہ کہلائے گا، اور چوں کہ تمام ذرائع میں زیادہ آسان ہے، اس لیے اس کو ترجیح ہوگی۔

۲:… متعدّد احادیث سے ثابت ہے کہ کنکریوں اور دانوں پر گننا آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ملاحظہ فرمایا اور نکیر نہیں فرمائی، چنانچہ:

الف: … سنن ابی داوٴد (ج:۱ ص:۳۱۰ باب التسبیح بالحصیٰ) اور مستدرک حاکم (ج:۱ ص:۴۸۵) میں حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ کی روایت ہے کہ:

”أنه دخل مع النبي صلی الله علیه وسلم علی امرأة وبین یدیها نوی أو حصى تسبح به فقال: أخبرك بما هو أیسر علیك من هذا وأفضل ․․․ الحدیث.“ (سکت علیه الحاکم، وقال الذهبي: صحیح)

ترجمہ:…”وہ آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ایک خاتون کے پاس گئے، جس کے آگے کھجور کی گٹھلیاں یا کنکریاں رکھی تھیں، جن پر وہ تسبیح پڑھ رہی تھی، آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میں تجھے ایسے چیز بتاوٴں جو اس سے زیادہ آسان اور افضل ہے؟ ․․․․․ الخ۔“

ب:… ترمذی اور مستدرک حاکم (ج:۱ ص:۵۴۷) پر حضرت صفیہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے:

”قالت: دخل علي رسول الله صلی الله علیه وسلم وبین یدي أربعة آلاف نواة أسبح بهن، فقال: یا بنت حيي! ما هذا؟ قلت: أسبح بهن! قال: قد سبحت منذ قمت على رأسك أکثر من هذا، قلت: علمني یا رسول الله! قال: قولي: سبحان الله عدد ما خلق من شیٴ...“ (قال الحاکم: هذا حدیث صحیح الإسناد ولم یخرجاه. وقال الذهبي: صحیح)

ترجمہ:…”آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم میرے پاس تشریف لائے، میرے آگے چار ہزار گٹھلیاں تھیں، جن پر میں تسبیح پڑھ رہی تھی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: یہ کیا ہے؟ عرض کیا: میں ان پر تسبیح پڑھ رہی ہوں! فرمایا: میں جب سے تیرے پاس کھڑا ہوا ہوں، میں نے اس سے زیادہ تسبیح پڑھ لی ہے۔ میں نے عرض کیا: یا رسول اللہ! مجھے بھی سکھائیے۔ فرمایا: یوں کہا کر: سبحان الله عدد ما خلق من شیٴ.“

حدیثِ اوّل کے ذیل میں صاحبِ ”عون المعبود“ لکھتے ہیں:

”هذا أصل صحیح لتجویز السبحة بتقریره صلی الله علیه وسلم؛ فإنه في معناها إذ لا فرق بین المنظومة والمنشورة فیما یعد به ولایعتد بقول من عدها بدعة.“ (عون المعبود ج:۱ ص:۵۵۵)

ترجمہ:…”آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا گٹھلیوں پر نکیر نہ فرمانا، تسبیح کے جائز ہونے کی صحیح اصل ہے؛  کیوں کہ تسبیح بھی گٹھلیوں کے ہم معنی ہے،کیوں کہ شمار کرنے کے لیے اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ گٹھلیاں پروئی ہوئی ہوں یا بغیر پروئی ہوئی ہوں، اور جو لوگ اس کو بدعت شمار کرتے ہیں، ان کا قول لائقِ اعتبار نہیں۔“

۳:… تسبیح، ایک اور لحاظ سے بھی ذکرِ الٰہی کا ذریعہ ہے، وہ یہ کہ تسبیح ہاتھ میں ہو تو زبان پر خودبخود ذکر جاری ہوجاتا ہے، اور تسبیح نہ ہو تو آدمی کو ذکر یاد نہیں رہتا، اسی بنا پر تسبیح کو ”مذکرہ“ کہا جاتا ہے، یعنی یاد دِلانے والی، اور اسی بنا پر صوفیہ اس کو ”شیطان کے لیے کوڑا“ کہتے ہیں کہ اس کے ذریعہ شیطان دفع ہوجاتا ہے، اور آدمی کو ذکر سے غافل کرنے میں کامیاب نہیں ہوتا، پس جب ذکرِ الٰہی میں مشغول رہنا مطلوب ہے اور تسبیح کا ہاتھ میں ہونا اس مشغولی کا ذریعہ ہے، تو اس کو بدعت کہنا غلط ہوگا، بلکہ ذریعہٴ ذکرِ الٰہی ہونے کی وجہ سے اس کو مستحب کہا جائے تو بعید نہ ہوگا‘‘۔ ( آپ کے مسائل اور ان کا حل، از مولانا محمد یوسف لدھیانوی رحمہ اللہ، ٤ / ٢٦٠ - ٢٦١، بعنوان: تسبیح پر ذکر کرنے پر اعتراض اور اس کا جواب۔ ط: مکبتہ لدھیانوی)

  یہاں تک کہ امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ اور مفتی سعودیہ محمد بن صالح العثیمین رحمہ اللہ بھی مروجہ تسبیح کو بدعت قرار نہیں دیتے، اس کے استعمال کے جواز کے قائل ہیں۔

فتاوي ابن تيميةمیں ہے :

"وربما تظاهر أحدهم بوضع السجادة على منكبه وإظهار المسابح في يده وجعله من شعار الدين والصلاة . وقد علم بالنقل المتواتر أن النبي صلى الله عليه وسلم وأصحابه لم يكن هذا شعارهم وكانوا يسبحون ويعقدون على أصابعهم كما جاء في الحديث " اعقدن بالأصابع فإنهن مسؤولات ، مستنطقات " وربما عقد أحدهم التسبيح بحصى أو نوى . والتسبيح بالمسابح من الناس من كرهه ومنهم من رخّص فيه لكن لم يقل أحد : أن التسبيح به أفضل من التسبيح بالأصابع وغيرها .ا.هـ. ثمّ تكلّم رحمه الله عن مدخل الرياء في التسبيح بالمسبحة وأنّه رياء بأمر ليس بمشروع وهو أسوأ من الرياء بالأمر المشروع". ( ٢٢ / ١٨٧)

"وفي سؤال لفضيلة الشيخ محمد بن صالح العثيمين ( اللقاء المفتوح 3/30) عن التسبيح بالمسبحة هل هي بدعة؟

فأجاب : التسبيح بالمسبحة تركه أولى وليس ببدعة لأن له أصلا وهو تسبيح بعض الصحابة بالحصى ، ولكن الرسول صلى الله عليه وسلم أرشد إلى أن التسبيح بالأصابع أفضل وقال " اعقدن - يخاطب النساء - بالأنامل فإنهن مستنطقات " فالتسبيح بالمسبحة ليس حراما ولا بدعة لكن تركه أولى لأن الذي يسبح بالمسبحة ترك الأولى وربما يشوب تسبيحه شيء من الرياء لأننا نشاهد بعض الناس يتقلد مسبحة فيها ألف خرزة كأنما يقول للناس : انظروني إني أسبح ألف تسبيحة ، ثالثاً: أن الذي يسبح بالمسبحة في الغالب يكون غافل القلب ولهذا تجده يسبح بالمسبحة وعيونه في السماء وعلى اليمين وعلى الشمال مما يدل على غفلة قلبه فالأولى أن يسبح الإنسان بأصابعه والأولى أن يسبح باليد اليمنى دون اليسرى لأن النبي  صلى الله عليه وسلم كان يعقد التسبيح بيمينه ولو سبح بيديه جميعا فلا بأس لكن الأفضل أن يسبح بيده اليمنى فقط .ا.هـ". ( اللقاء المفتوح ٣ / ٣٠)  فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144008202071

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں