بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

14 شوال 1445ھ 23 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

مرد کا محرم عورت کے ساتھ برابر میں یا اس کے آگے پیچھے نماز پڑھنے کا حکم


سوال

محرم عورت کے ساتھ برابر یا آگے یا پیچھے کھڑا ہونے میں نماز تو فاسد نہیں ہوتی؟

جواب

اگر کوئی مرد کسی عورت کے دائیں بائیں یا پیچھے اس کی سیدھ میں نماز پڑھے اور وہاں درج ذیل شرائط پائی جائیں تو مرد کی نماز فاسد ہوجائے گی، اگرچہ وہ عورت اس کی محرم ہو،  وہ شرائط یہ ہیں :

(1)   وہ عورت مشتہاۃ ہو، یعنی  ہم بستری کے قابل ہو خواہ بالغ ہو یا نہ ہو، بوڑھی ہو یا محرم، سب کا حکم یہی ہے۔

(2)  دونوں نماز میں ہوں، یعنی  ایسا نہ ہو کہ ایک نماز میں ہے اور دوسرا نماز میں نہیں ہے۔

(3)  مرد کی پنڈلی، ٹخنہ  یا بدن کا کوئی بھی عضو عورت کے کسی عضو کے مقابلہ میں آرہا ہو۔

(4)  یہ سامنا کم از کم ایک رکن (تین تسبیح پڑھنے کے بقدر) تک برقرار رہا ہو۔

(5)  یہ اشتراک مطلق نماز (رکوع سجدے والی نماز) میں پایا جائے، یعنی نمازِ جنازہ کا یہ حکم نہیں ہے۔

(6)  دونوں کی نماز ایک ہی قسم کی ہو، یعنی  مرد وعورت دونوں ایک ہی امام کی اقتدا میں نماز پڑھ رہے ہوں۔

(7)  تحریمہ دونوں کی ایک ہو،  یعنی برابر نماز پڑھنے والی عورت نے برابر والے مرد کی اقتدا  کی ہو یا دونوں نے کسی تیسرے آدمی کی اقتدا کی ہو۔

(8)  عورت میں  نماز صحیح ہونے کی شرائط موجود ہوں،  یعنی  عورت پاگل یا حیض ونفاس کی حالت میں  نہ ہو۔

(9)   مرد وعورت کے نماز پڑھنے کی جگہ سطح کے اعتبار سے برابر ہو، یعنی اگر سطح میں آدمی کے قد کے بقدر فرق ہو، تو محاذات کا حکم نہ ہوگا۔

(10) دونوں کے درمیان کوئی حائل نہ ہو،  یعنی دونوں کے درمیان ایک انگلی کے برابر موٹی اور سترے کی مقدار اونچی کوئی چیز یا  ایک آدمی کے کھڑے ہونے کے بقدر فاصلہ نہ ہو۔

(11)  مردنے اپنے قریب آکر کھڑی ہونے والی عورت کو اشارے سے وہاں کھڑے ہونے سے منع نہ کیا ہو، اگر اشارہ کیا ہو  پھر بھی عورت  مرد کے برابر میں کھڑی رہی، تواب مرد کی نماز فاسد نہ ہوگی۔

(12) اور امام نے مرد کے برابر میں کھڑی ہوئی عورت کی امامت کی نیت بھی کی ہو۔

  اگر مذکورہ شرائط پائی جائیں تو ایک عورت کی وجہ سے تین مردوں ( دائیں بائیں جانب والے دو مردوں کی اور عورت کی سیدھ میں پیچھے ایک مرد) کی نماز فاسد  ہوجائے گی۔

فتاوی عالمگیری میں ہے:

"محاذاة المرأة الرجل مفسدة لصلاته ولها شرائط:

(منها) أن تكون المحاذية مشتهاةً تصلح للجماع ولا عبرة للسن وهو الأصح .... (ومنها) أن تكون الصلاة مطلقةً وهي التي لها ركوع وسجود.... (ومنها) أن تكون الصلاة مشتركةً تحريمةً وأداءً .... (ومنها) أن يكونا في مكان واحد...(ومنها) أن يكونا بلا حائل ... وأدنى الحائل قدر مؤخر الرحل وغلظه غلظ الأصبع والفرجة تقوم مقام الحائل وأدناه قدر ما يقوم فيه الرجل، كذا في التبيين. (ومنها) أن تكون ممن تصح منها الصلاة.... (ومنها) أن ينوي الإمام إمامتها أو إمامة النساء وقت الشروع ... (ومنها) أن تكون المحاذاة في ركن كامل.... (ومنها) أن تكون جهتهما متحدة ..... ثم المرأة الواحدة تفسد صلاة ثلاثة واحد عن يمينها وآخر عن يسارها وآخر خلفها ولا تفسد أكثر من ذلك. هكذا في التبيين.وعليه الفتوى. كذا في التتارخانية والمرأتان صلاة أربعة واحد عن يمينهما وآخر عن يسارهما واثنان خلفهما بحذائهما ،وإن كن ثلاثا أفسدت صلاة واحد عن يمينهن وآخر عن يسارهن وثلاثة خلفهن إلى آخر الصفوف وهذا جواب الظاهر. هكذا في التبيين (1/ 89، کتاب الصلاۃ، الباب الخامس فی الامامہ، الفصل  الخامس فی بیان مقام الامام والماموم، ط:رشیدیہ)

حاشية الطحطاوي على مراقي الفلاح :  
"ومحاذاة المشتهاة" بساقها وكعبها في الأصح ولو محرما له أو زوجة اشتهت ولو ماضيا كعجوز شوهاء في أداء ركن عند محمد أو قدره عند أبي يوسف "في صلاة" ولو بالإيماء "مطلقة" فلا تبطل صلاة الجنازة إذ لا سجود لها "مشتركة تحريمة" باقتدائهما بإمام أو اقتدائها به  "في مكان متحد" ولو حكما بقيامها على ما دون قامة "بلا حائل" قدر ذراع أو فرجة تسع رجلا ولم يشر إليها لتتأخر عنه فإن لم تتأخر بإشارته فسدت صلاتها لا صلاته ولا يكلف بالتقدم عنها لكراهته "و" تاسع شروط المحاذاة المفسدة أن يكون الإمام قد "نوى إمامتها" فإن لم ينوها لا تكون في الصلاة فانتفت المحاذاة ۔ (حاشیہ الطحطاوی علی مراقی الفلاح، ص: 329، باب مایفسد الصلاۃ، ط: قدیمی) (شامی، 1/572، کتاب الصلاۃ ،باب الامامہ،ط: سعید)  فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144008201068

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں