بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

16 شوال 1445ھ 25 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

مرحومہ کے سونے کی زکاۃ


سوال

ایک عورت ہے جس کے پاس 4تولے سونا اور کچھ نقدی ہے اور تقریباً  30 سال سے اس نے زکاۃ ادا نہیں کی، اور اب وہ فوت ہو گئی ہے، اور ورثاء اس کے مال سے زکاۃ دینا چاہتے ہیں تو اب سوال یہ ہے کہ اس پر زکاۃ دینا واجب ہے کہ نہیں؟ اگر دینا واجب ہے تو ان 30 سالوں کی زکاۃ دینے کی کیا صورت ہوگی؟ نیز 30 سال پہلے سونے کی قیمت بہت کم تھی بہ نسبت آج کے اور ہر سال قیمت میں اضافہ اور کم ہوناہوتا رہا یہاں تک کہ اب تقریباً 90000 ہزار  تک پہنچ چکی ہےتو  اب سوال یہ ہے کہ کیا زکاۃ ہر سال کے اعتبار سے جو اس وقت نرخ تھا دی جائے گی یا اب آج اسی وقت کے اعتبار سے آج ہی کی قیمت کااندازا  لگاکر کل سالوں کی  زکاۃ دی جائے گی۔  نیز ان تمام سالوں کی قیمتِ فروخت کا صحیح اندازا  لگانا مشکل ہے تو  اگر قیمتِ خرید کے اعتبار سے دی جائے تو اس میں کیاکچھ حرج تو نہیں ہوگا ، کیوں کہ جس عورت کا سونا ہےوہ تو فوت ہو چکی ہے اور اس کے ترکہ میں ورثاء کا حق بھی ہے تو اگر کوئی ایک وارث بھی ناراض ہو  قیمتِ خرید کے اعتبار سے زکاۃ دینے پر تو  پھر کیا صورت ہوگی زکاۃ دینے کی؟

جواب

اگر مذکورہ خاتون نے اپنی زکاۃ ادا کرنے کی وصیت کی تھی تو اس کے ترکہ کے ایک تہائی حصے سے جتنی زکاۃ ادا ہوسکتی ہے، ورثاء پر وہ زکاۃ ادا کرنا واجب ہے اور اگر زکاۃ ادا کرنے کی وصیت نہیں کی تھی تو ورثاء پر زکاۃ دینا واجب نہیں ہے، اسی طرح مرحومہ کی وصیت کی صورت میں بھی ایک تہائی ترکہ سے زائد مقدار ادا کرنا ورثاء پر لازم نہیں ہے۔ تاہم اگر وہ اپنی رضامندی سے مرحومہ کی طرف سے زکاۃ ادا کریں گے تو امید ہے کہ مرحومہ کی عند اللہ پکڑ نہیں ہوگی۔

زکاۃ کا حساب کرنے کا طریقہ یہ ہے 4 تولہ سونا اور نقدی پیسوں کا ادائیگی والے دن جو  40واں حصہ ہوگا، وہ زکاۃ میں نکالا جائے گا، یعنی ہر سال کی زکاۃ نکالنے میں سونے کی موجودہ قیمت کا اعتبا ہوگا۔ اور پہلے سال کی مقدارِ واجب کو مجموعے سے منہا کرنے کے بعد آئندہ سال کی زکاۃ کی مقدار کا حساب لگایا جائے گا۔  تاہم جب ادا کرتے کرتے اگر اس حد تک اس کی مالیت بچے کہ وہ نصاب سے کم ہوجائے تو اس سال کی اور اس کے بعد کے سالوں کی زکاۃ واجب نہیں شمار کی جائے گی۔

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (6/ 760):

"(ثم) تقدم (ديونه التي لها مطالب من جهة العباد)، ويقدم دين الصحة على دين المرض إن جهل سببه، وإلا فسيان كما بسطه السيد، (وأما دين الله تعالى، فإن أوصى به وجب تنفيذه من ثلث الباقي، وإلا لا.

 (قوله: وأما دين الله تعالى إلخ) محترز قوله: من جهة العباد، وذلك كالزكاة والكفارات ونحوها، قال الزيلعي: فإنها تسقط بالموت، فلا يلزم الورثة أداؤها إلا إذا أوصى بها؛ أو تبرعوا بها هم من عندهم؛ لأن الركن في العبادات نية المكلف وفعله، وقد فات بموته فلا يتصور بقاء الواجب اهـ وتمامه فيه". فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144012201215

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں