بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 رمضان 1445ھ 28 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

مذاق میں جھوٹ بولنے کا حکم


سوال

دوستوں کے ساتھ مذاق میں شغلی طور پر جھوٹ بولنا کیسا ہے؟ یعنی ہنسی مذاق کے لیے؟

جواب

مذاق اور شغل کے طور پر بھی جھوٹ بولنا جائز نہیں ہے؛ کیوں کہ جھوٹ بالکلیہ حرام ہے، کسی بھی حالت میں جھوٹ بولنے کی گنجائش نہیں ہے، البتہ بعض حالات میں توریہ کرنے کی گنجائش ہے، توریہ سے مراد یہ ہے کہ ایسا جملہ بولا جائے کہ جس کا ایک ظاہری معنیٰ ہو اور دوسرا معنیٰ غیر ظاہرہو، اور آدمی وہ جملہ بول کر سامنے والے کو یہ تاثر دے کہ میں نے ظاہری معنیٰ مراد لیا ہے، جب کہ اس کی مراد دوسرا والا معنیٰ ہو، خلاصہ یہ کہ ایسالفظ یافعل جس کے ظاہری معنی کو چھوڑکر دوسرا معنی مرادلیاجائے جو صحیح ہے۔

اسی طرح آدمی حق پر ہو اور دشمن ظالم ہو اور اس سے واقعی خطرہ ہو اور ذو معنٰی بات کیے بغیر جان نہ چھوٹتی ہو  تو اس کی اجازت ہے، یا دو فریقین کے درمیان صلح کرانے کی غرض سے کسی ایک فریق کی خلافِ واقعہ ایسی بات دوسرے فریق سے کہی جائے جس سے اس کا دل نرم ہو، اور وہ صلح پر راضی ہوجائے تو حدیثِ مبارک میں ہے کہ ایسا شخص جھوٹا نہیں ہے۔

فقہاءِ کرام نے محض سامنے والے کا دل خوش کرنے اور دل لگی کے لیے مذاق کے طور پر ایسے جملے استعمال کرنے کی اجازت دی ہے جو توریہ پر مشتمل ہوں، جیسے کہ رسول اللہ ﷺ نے ایک بڑھیا سے فرمایا کہ بوڑھی عورتیں جنت میں نہیں جائیں گی، پھر اس کے پریشان ہونے پر وضاحت فرمائی کی میری مراد یہ ہے کہ جنت میں سب جوان ہوکر جائیں گے، بڑھاپے کی حالت میں کوئی بھی جنت میں نہیں جائے گا، اسی طرح ایک موقع پر جب ایک سائل نے اونٹ یا اونٹنی مانگی تو آپ ﷺ نے فرمایا کہ ہم آپ کو اونٹنی کا بچہ دیں گے، اس نے پریشان ہوکر پوچھا کہ حضور اونٹنی کا بچہ میرے کس کام آئے گا، مجھے تو بڑا اونٹ چاہیے، تو آپ ﷺ نے وضاحت فرمائی کہ ہر اونٹ کسی اونٹنی کا بچہ ہی ہوتا ہے چاہے وہ کتنا ہی بڑا ہوجائے۔

خلاصہ یہ ہے کہ مذاق میں توریہ پر مشتمل (ذومعنیٰ) جملے بولنے کی گنجائش ہے بشرطیکہ وہ جملے صریح جھوٹ پر مشتمل نہ ہوں اور اس مذاق سے کسی کی دل آزاری، آبرو ریزی، عیب جوئی  وغیرہ جیسے فاسد مقاصد نہ ہوں۔

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (6/ 427):
"الكذب مباح لإحياء حقّه ودفع الظلم عن نفسه والمراد التعريض؛ لأنّ عين الكذب حرام، قال: وهو الحق قال تعالى: {قتل الخراصون} [الذاريات: 10]  الكل من المجتبى وفي الوهبانية قال:

وللصلح جاز الكذب أو دفع ظالم ... وأهل الترضي والقتال ليظفروا

(قوله الكذب مباح لإحياء حقه) كالشفيع يعلم بالبيع بالليل، فإذا أصبح يشهد ويقول علمت الآن، وكذا الصغيرة تبلغ في الليل وتختار نفسها من الزوج وتقول: رأيت الدم الآن. واعلم أن الكذب قد يباح وقد يجب والضابط فيه كما في تبيين المحارم وغيره عن الإحياء أن كل مقصود محمود يمكن التوصل إليه بالصدق والكذب جميعا، فالكذب فيه حرام، وإن أمكن التوصل إليه بالكذب وحده فمباح إن أبيح تحصيل ذلك المقصود، وواجب إن وجب تحصيله كما لو رأى معصوما اختفى من ظالم يريد قتله أو إيذاءه فالكذب هنا واجب وكذا لو سأله عن وديعة يريد أخذها يجب إنكارها، ومهما كان لا يتم مقصود حرب أو إصلاح ذات البين أو استمالة قلب المجني عليه إلا بالكذب فيباح، ولو سأله سلطان عن فاحشة وقعت منه سرا كزنا أو شرب فله أن يقول ما فعلته، لأن إظهارها فاحشة أخرى، وله أيضا أن ينكر سر أخيه، وينبغي أن يقابل مفسدة الكذب بالمفسدة المترتبة على الصدق، فإن كانت مفسدة الصدق أشد، فله الكذب، وإن العكس أو شك حرم، وإن تعلق بنفسه استحب أن لا يكذب وإن تعلق بغيره لم تجز المسامحة لحق غيره والحزم تركه حيث أبيح، وليس من الكذب ما اعتيد من المبالغة كجئتك ألف مرة لأن المراد تفهيم المبالغة لا المرات فإن لم يكن جاء إلا مرة واحدة فهو كاذب اهـ ملخصا ويدل لجواز المبالغة الحديث الصحيح «وأما أبو جهم فلا يضع عصاه عن عاتقه» .
قال ابن حجر المكي: ومما يستثنى أيضا الكذب في الشعر إذا لم يمكن حمله على المبالغة كقوله: أنا أدعوك ليلا ونهارا، ولا أخلي مجلسا عن شكرك، لأن الكاذب يظهر أن الكذب صدق ويروجه، وليس غرض الشاعر الصدق في شعره، وإنما هو صناعة وقال الشيخان يعني الرافعي والنووي بعد نقلهما ذلك عن القفال والصيدلاني وهذا حسن بالغ اهـ (قوله قال) أي صاحب المجتبى وعبارته قال - عليه الصلاة والسلام - «كل كذب مكتوب لا محالة إلا ثلاثة الرجل مع امرأته أو ولده والرجل يصلح بين اثنين والحرب فإن الحرب خدعة» ، قال الطحاوي وغيره هو محمول على المعاريض، لأن عين الكذب حرام. قلت: وهو الحق قال تعالى - {قتل الخراصون} [الذاريات: 10]- وقال - عليه الصلاة والسلام - «الكذب مع الفجور وهما في النار» ولم يتعين عين الكذب للنجاة  قلت: ويؤيده ما ورد عن علي وعمران بن حصين وغيرهما «إن في المعاريض لمندوحة عن الكذب» وهو حديث حسن له حكم الرفع كما ذكره الجراحي " وذلك كقول من دعي لطعام: أكلت. يعني أمس، وكما في قصة الخليل - عليه الصلاة والسلام -، وحينئذ فالاستثناء في الحديث لما في الثلاثة من صورة الكذب، وحيث أبيح التعريض لحاجة لا يباح لغيرها لأنه يوهم الكذب، وإن لم يكن اللفظ كذبا قال في الإحياء نعم المعاريض تباح بغرض حقيقي كتطييب قلب الغير بالمزاح كقوله صلى الله عليه وسلم : «لا يدخل الجنة عجوز» وقوله: «في عين زوجك بياض» وقوله: «نحملك على ولد البعير» وما أشبه ذلك.
(قوله: جاز الكذب) بوزن علم مختار أي بالكسر فالسكون قال الشارح ابن الشحنة، نقل في البزازية: أنه أراد به المعاريض لا الكذب الخالص (قوله: وأهل الترضي) ليحترز به عن الوحشة والخصومة شارح كقوله: أنت عندي خير من ضرتك أي من بعض الجهات، وسأعطيك كذا أي إن قدر الله تعالى". 
فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144105200770

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں