بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

16 شوال 1445ھ 25 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

مدینہ سے مکہ جانے کے باوجود عمرہ نہ کرنے کا حکم، دو ماہ کا حمل ضائع ہونے کے بعد نکلنے والے خون کا حکم


سوال

میں اپنے عمرہ کے سفر کے دوران حاملہ تھی، حمل ضائع ہونے اور نفاس آنے کی وجہ سے میں مدینہ سے مکہ جانے کے باوجود عمرہ ادا نہیں کرسکی، براہ مہربانی یہ بتادیجیے  کہ مجھ پر یہ عمرہ فرض تھا یا نہیں؟ اور اس کی قضا کیا ہوگی؟ حمل دو ماہ کا تھا، تو یہ بھی بتادیں کہ اس حمل کے ضائع ہونے کے بعد نکلنے والا خون نفاس کے حکم میں داخل ہے یا نہیں؟ اور اس میں کس حد تک عبادت کی جاسکتی ہے؟

جواب

مدینہ سے مکہ جاتے ہوئے آپ پر لازم تھا کہ آپ میقات سے عمرہ کے احرام کی نیت کر کے جاتیں اور مکہ پہنچنے کے بعد پاک ہونے کا انتظار کرتیں اور پاک ہونے کے بعد عمرہ کی ادائیگی کرتیں، لیکن اگر آپ نے ایسا نہیں کیا تو آپ کے اوپر لازم ہے کہ کسی بھی میقات سے اس عمرہ کی قضا کی نیت سے احرام باندھ کر ایک عمرہ ادا کرلیں۔

دو ماہ کا حمل ضائع ہونے کے بعد آنے والا خون نفاس نہیں، بلکہ حیض شمار ہوگا بشرطیکہ تین دن سے کم نہ ہو، حالتِ حیض میں نماز، روزہ، قرآنِ پاک کی تلاوت، مسجد حرام میں داخل ہونے اور طواف کرنے کی ممانعت ہے، اس کے علاوہ ذکر و اذکار وغیرہ اور دیگر کوئی بھی عبادت کرسکتے ہیں۔

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (1/ 302):

"(وسقط) مثلث السين: أي مسقوط (ظهر بعض خلقه كيد أو رجل) أو أصبع أو ظفر أو شعر، ولايستبين خلقه إلا بعد مائة وعشرين يوماً (ولد) حكماً (فتصير) المرأة (به نفساء والأمة أم ولد ويحنث به) في تعليقه وتنقضي به العدة، فإن لم يظهر له شيء فليس بشيء، والمرئي حيض إن دام ثلاثاً وتقدمه طهر تام وإلا استحاضة.

 (قوله: فليس بشيء) قال الرملي في حاشية المنح بعد كلام: وحاصله: أنه إن لم يظهر من خلقه شيء فلا حكم له من هذه الأحكام (قوله: والمرئي) أي الدم المرئي مع السقط الذي لم يظهر من خلقه شيء ... (قوله: وإلا استحاضة) أي إن لم يدم ثلاثاً وتقدمه طهر تام، أو دام ثلاثاً ولم يتقدمه طهر تام، أو لم يدم ثلاثاً ولاتقدمه طهر تام ح".فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144008201831

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں