بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

14 شوال 1445ھ 23 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

مدرسہ کے فنڈ سے کھالیں خرید کر بیچنے کے بعد نفع مدرسہ کے فنڈ میں جمع کرانا، مدرسہ والوں کا حیلہ تملیک کے ذریعہ کھال کی قیمت مدرسہ میں لگانا


سوال

ایک مدرسہ میں رہائشی طلباء نہیں ہیں، اس مدرسہ میں جومہتمم صاحب ہیں،  وہ کھالیں خرید کر اس کا جو فائدہ ہے وہ مدرسہ کے فنذ میں جمع کرا دیتے ہیں،  ایسا کرنا جائز ہے یانہیں ؟  چار  پانچ  کھال فری میں بھی مدرسہ میں آتی ہیں،  کیا  اس کھال کو تملیک کرکے مدرسہ میں استعمال کر سکتا ہے؟  قران وحدیث کی روشنی میں مفصل جواب عنایت  کریں!

جواب

قربانی کی کھال جب تک  فروخت نہ کی جائے قربانی کرنے والے کو اس میں تین قسم کے اختیارات حاصل ہوتے ہیں:

(1) خود استعمال کرنا۔ (2) کسی کو ہدیہ کے طور پر دینا۔ (3) فقراء اور مساکین پر صدقہ کرنا۔

تاہم اگر قربانی کی کھال ، قربانی کرنے والا یا اس کا وکیل نقد رقم یا کسی چیز کےعوض فروخت کردے  تو اس کی قیمت  صدقہ کرنا واجب ہے، اور کھال کی قیمت کا مصرف وہی ہے جو زکاۃ کا مصرف ہے، اور زکاۃ میں تملیک شرط ہے ، اسے تعمیراتی کام میں لگانا درست نہیں ہے۔

قربانی  کرنے والا جب اپنے جانور کی کھال کسی ادارے یا مدرسہ  کو دیتا ہے تو اس ادارے یا مدرسہ کے نمائندے اس قربانی کرنے والے کے وکیل بن جاتے ہیں، اور  ان پر لازم ہے کہ وہ  اس کو فروخت کرکے قربانی کرنے  والے کی طرف سے  اس کھال کی قیمت کو مستحقِ زکاۃ لوگوں کو  دے دیں ، اس کھال کی رقم سے تعمیراتی کام کرانا درست نہیں ہے.

لہٰذا صورتِ مسئولہ میں  مدرسہ کے مہتمم صاحب  اگر مدرسہ کے فنڈ سے کھال خرید کر پھر نفع کے ساتھ اسے بیچ کر اصل رقم مع نفع کے مدرسہ کے فنڈ میں ڈال دیتے ہیں تو ایسا کرنا جائز ہے ، اس میں کوئی حرج نہیں۔  البتہ جو کھال جانور کے  مالک کی طرف سے مدرسہ والوں کو  مفت میں دی جائے  تو اسے بیچنے کے بعد کسی مستحق (طلبہ وغیرہ) کو دینا لازم ہوگا،  بلا ضرورتِ شدیدہ کے حیلہ تملیک کے ذریعہ اس کھال کی رقم مدرسہ کی تعمیرات وغیرہ کے اخراجات یا اساتذہ کی تنخواہوں میں صرف کرنا درست نہیں ہے۔

المحيط البرهاني في الفقه النعماني (6/ 95)
''ويجوز الانتفاع بجلد الأضحية، وهدي المتعة والتطوع بأن يتخذها فرواً أو بساطاً، أو حزاماً، أو غربالاً أو قطعاً، وله أن يشتري به متاع البيت كالغربال، والمنخل، والفرو، والكساء، والخف، وكذلك له أن يشتري به ثوباً يلبسه، ولا يشتري به الخل ...، وكذلك لا يشتري به اللحم، ولا بأس ببيعه بالدراهم ليتصدق بها، وليس له أن يبيعها بالدراهم لينفقه على نفسه، ولو فعل ذلك تصدق بثمنها''. 
فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 143909201211

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں