بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

11 شوال 1445ھ 20 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

مدرسہ کو رہائش گاہ کے لیے استعمال کرنا


سوال

چندےکےپیسوں سے بنائے گئے مدرسہ کومحض رہائش گاہ کےلیےاستعمال کرسکتے ہیں کہ نہیں؟

جواب

چندہ کی رقم سے  مدرسہ بننے کے بعد وہ مدرسہ وقف ہوجاتا ہے، اور   وقف جب درست اور صحیح ہوجائے  تو موقوفہ چیز قیامت تک کے لیے  واقف کی ملکیت سے  نکل کر اللہ تعالیٰ کی ملکیت میں داخل ہوجاتی ہے، اس کے بعد اس کی خرید وفروخت کرنا ، ہبہ کرنا، کسی کو مالک بنانا  جائز نہیں ہوتا، واقف نے وہ جگہ  جس   جہت اور مقصد کے لیے   وقف کی ہواس کو اسی مقصد کے لیے استعمال کرنا ضروری ہوتا ہے،لہذا مدرسہ کو صرف رہائش گاہ کے طور پر استعمال کرنا جائز نہیں ہے،  ایسا کرنے والے گناہ گار ہوں گے۔

'' فتح القدیر'' میں ہے:

''وعندهما حبس العين على حكم ملك الله تعالى فيزول ملك الواقف عنه إلى الله تعالى على وجه تعود  منفعته إلى العباد، فيلزم ولا يباع ولا يوهب ولايورث''.(فتح القدیر (6 / 203)، کتاب الوقف، ط: دار الفکر)

''فتاوی شامی'' میں ہے:

''شرط الواقف كنص الشارع، أي في المفهوم والدلالة ووجوب العمل به''۔  (فتاوی شامی، 4/433، کتاب الوقف، ط: سعید)فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 143909200290

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں