بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

10 شوال 1445ھ 19 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

مدرسہ میں زکاۃ دینا


سوال

1- کیا مدرسے کو زکاۃ دے سکتے ہیں یا نہیں، حال آں کہ مدرسہ میں غریب طلبہ کے ساتھ مال دار بھی ہوتے ہیں، وہ بھی مدرسہ کا طعام وغیرہ کھاتے ہیں تو کیا ان کے لیے یہ طعام وغیرہ جائز ہوگا یا نہیں؟ 

2 - اگر آدمی زکاۃ کے پیسے سے مٹھائی وغیرہ خرید کر مدرسے کے طلبہ پر تقیسم کرے تو  زکاۃ ادا ہوجاۓ گی یا نہیں؟ 

جواب

1- مدرسہ میں زکاۃ صرف مستحق طلبہ پر استعمال کی جاتی ہے، مال دار طلبہ اپنے کھانے وغیرہ کے اخراجات خود ادا کرتے ہیں، یا انہیں زکات کے علاوہ ان مدات سے سہولیات دی جاتی ہیں جن کا استعمال مال دار کے لیے جائز ہو۔ اگر کوئی غیر مستحق اپنے آپ کو مستحق ظاہر کرکے یا کھانے وغیرہ کے اخراجات ادا کیے بغیر چھپ کر مستحق طلبہ کا کھانا وغیرہ استعمال کرے تو اس کا ذمہ دار وہ خود ہوگا، انفرادی ایسا کوئی واقعہ ہوجائے تو اس کی بنیاد پر یہ کہنا مناسب نہیں ہے کہ مدارس میں غریب طلبہ کے ساتھ مال دار بھی کھاتے ہیں۔

مدارسِ اسلامیہ دوسرے لوگوں کی شرعی راہ نمائی میں مصروفِ عمل ہیں، اربابِ مدارس کو زکاۃ کے مسائل اور ان کے مصارف کا خوب علم ہوتا ہے، اور الحمد للہ  اہلِ حق کے  مدارس ان مسائل کی رعایت رکھتے ہیں۔ لہذا مدرسہ مٰیں زکاۃ دینے سے ادا ہو جاتی ہے، البتہ زکاۃ دینے والے کو دیتے وقت بتادینا چاہیے کہ یہ زکاۃ کی رقم ہے، تاکہ منتظمین اسے زکاۃ کے مصارف میں ہی صرف کریں۔

2- کوئی شخص زکاۃ کی چیز تقسیم کے لیے آئے تو اس میں دو باتوں کا لحاظ ضروری ہے:

1:  صرف زکاۃ کے مستحق طلبہ میں ہی تقسیم کی جائے، مال دار طلبہ کو نہ دی جائے، مٹھائی وغیرہ میں بھی اس کا اہتمام کرنا لازم ہے۔

2: وہ چیز طلبہ کو مالک بناکر دے دی جائے۔ فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144010200913

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں