بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

7 شوال 1445ھ 16 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

مخلوط اور گانے باجے والی تقریبات میں شرکت کا حکم


سوال

وہ اجتماع اور دعوتیں جن میں مخلوط اجتما ع ہو، گانا باجااور رسوم ورواج ہوں ان میں شرکت کا کیا حکم ہے؟

جواب

شادی بیاہ کی ایسی تقریبات جو فی نفسہ تو جائز ہوں، لیکن ان میں غیر شرعی امور (مثلاً مخلوط اجتماع، بے پردگی، گانا باجا وغیرہ ) کا ارتکاب کیا جارہا ہو ان میں شرکت کا حکم یہ ہے کہ اگر پہلے سے یہ بات معلوم ہو کہ تقریب میں غیر شرعی امور کا ارتکاب ہوگا تو اس صورت میں ہرگز اس تقریب میں شرکت کے لیے نہیں جانا چاہیے، البتہ اگر مدعو شخص کوئی عالم و مقتدا ہو اور اسے امید ہو کہ وہ اس تقریب میں جاکر معصیت کے ارتکاب کو روک سکتا ہے تو اسے جانا چاہیے؛ تاکہ اس کی وجہ سے دوسرے لوگ بھی گناہ سے بچ جائیں۔

 اور اگر پہلے سے معلوم نہ ہو کہ وہاں کسی معصیت کا ارتکاب ہورہا ہے، بلکہ وہاں جاکر معلوم ہو تو اگر اندر جانے سے پہلے معلوم ہوجائے تو واپس لوٹ آئے،اندر نہ جائے، البتہ اگر اندر جاکر اس معصیت کو بند کرنے پر قادر ہو تو اندر جاکر اس معصیت کو بند کروادے۔اور اگر اندر داخل ہونے کے بعد معصیت کے ارتکاب کا علم ہو اور معصیت کو بند کرنے پر قدرت بھی نہ ہو تو مدعوشخص اگر عالم و مقتدا ہو تو وہ وہاں نہ بیٹھے، بلکہ اٹھ کر واپس چلا جائے، کیوں کہ اس کے وہاں بیٹھنے میں علم اور دین کا استخفاف (اہانت اور توہین) ہے، البتہ اگر مدعو شخص عام آدمی ہو تو وہاں بیٹھ کر کھانا کھانے کی گنجائش ہے۔

نیزاگر کوئی شخص شرعی حکم کے پیش نظر اس طرح کی کسی تقریب یا رسوم میں شرکت نہ کرے تو اسے قطع رحمی نہیں کہا جائے گا اور نہ ہی اسے قطع رحمی کا گناہ ملے گا ، بلکہ ایمان کا تقاضہ ہونے کی وجہ سے اسے اس پر ثواب بھی ملے گا۔

بدائع الصنائع في ترتيب الشرائع (5/ 128):

"رجل دعي إلى وليمة أو طعام وهناك لعب أو غناء جملة الكلام فيه أن هذا في الأصل لا يخلو من أحد وجهين: إما أن يكون عالماً أن هناك ذاك، وإما إن لم يكن عالماً به، فإن كان عالماً فإن كان من غالب رأيه أنه يمكنه التغيير يجيب؛ لأن إجابة الدعوى مسنونة قال النبي عليه الصلاة والسلام : «إذا دعي أحدكم إلى وليمة فليأتها». وتغيير المنكر مفروض فكان في الإجابة إقامة الفرض ومراعاة السنة، وإن كان في غالب رأيه أنه لا يمكنه التغيير لا بأس بالإجابة؛ لما ذكرنا أن إجابة الدعوة مسنونة ولاتترك السنة لمعصية توجد من الغير، ألا ترى أنه لا يترك تشييع الجنازة وشهود المأتم وإن كان هناك معصية من النياحة وشق الجيوب ونحو ذلك؟ كذا ههنا.

وقيل: هذا إذا كان المدعو إماماً يقتدى به بحيث يحترم ويحتشم منه، فإن لم يكن فترك الإجابة والقعود عنها أولى، وإن لم يكن عالماً حتى ذهب فوجد هناك لعباً أو غناءً فإن أمكنه التغيير غيّر، وإن لم يمكنه ذكر في الكتاب، وقال: لا بأس بأن يقعد ويأكل، قال أبو حنيفة - رضي الله عنه -: ابتليت بهذا مرةً، لما ذكرنا: أن إجابة الدعوة أمر مندوب إليه فلا يترك لأجل معصية توجد من الغير، هذا إذا لم يعلم به حتى دخل فإن علمه قبل الدخول يرجع ولا يدخل، وقيل: هذا إذا لم يكن إماماً يقتدى به فإن كان لا يمكث بل يخرج؛ لأن في المكث استخفافاً بالعلم والدين وتجرئةً لأهل الفسق على الفسق، وهذا لا يجوز، وصبر أبي حنيفة - رحمه الله - محمول على وقت لم يصر فيه مقتدى به على الإطلاق، ولو صار لما صبر، ودلت المسألة على أن مجرد الغناء  معصية، وكذا الاستماع إليه، وكذا ضرب القصب والاستماع إليه، ألا ترى أن أبا حنيفة - رضي الله عنه - سماه ابتلاءً". فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144010201079

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں