بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 رمضان 1445ھ 29 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

مختلف فتاوی میں عام مسلمان کس مفتی کے فتوی پر عمل کرے؟


سوال

جب کسی مسئلہ میں علماءِ  کرام کے درمیان اختلاف ہو تو کیا ایک عام مسلمان کے لیے یہ جائز ہے کہ وہ مختلف الراۓ علماء  میں سے جس کی چاہے بات مانے؟ ازراہِ کرم وضاحت فرما دیں اور اصول بتا دیں تا کہ عام مسلمان اس اصول کو (آپ کے بتاۓ گۓ قیود و ضوابط کے مطابق ) استعمال کر سکے!

جواب

جب کسی مسئلہ میں مفتیانِ کرام کی آراء کا اختلاف ہوجائے تو عام آدمی کس رائے کو اور کیوں اختیار کرے؟  اس کی تفصیل یہ ہے:

1- اوّلا توجس قول کو دلائل کی رو سے قوت حاصل ہو اس کواختیار کیا جائےگا۔

2- اگر ترجیح کی کوئی صورت نہ ہو  (مثلاً عام آدمی کو دلائل اور ان کی قوت، استنباط اور طریقہ استنباط کا علم نہ ہو) تو پھر جس طرف جمہور اہلِ علم کا رجحان ہو اس قول پر عمل کرے۔

3- اگر دونوں رائے کے قائلین کی تعداد  یک ساں یا بہت زیادہ ہو کہ اکثر اہلِ علم کا رجحان نہ معلوم ہوسکے تو پھر دونوں میں سے جن کے علم وتقوی پر اس کو زیادہ اعتماد ہو اور عام حالات میں بھی ان ہی کی رائے پر عمل کرتا ہو تو ان کی رائےکو لینا لازم ہوگا، یعنی جن علماء سے وہ عموماً راہ نمائی لیتا ہے اور ان کے بیان کردہ مسائل پر اسے اعتماد ہوتاہے، ان ہی کی رائے پر اس مسئلے میں عمل کرے، صرف سہولت یا خواہشِ نفس کی وجہ سے دوسرے عالم کے فتوے پر عمل نہ کرے، خواہ جواز کے قائل مفتی انتہائی متدین و متقی ہوں۔ اس معاملے میں نفسانی خواہش کی بالکل آمیزش نہ آنے دے۔

4-  بالفرض دونوں میں سے کسی ایک کو دوسرے پر علم وتقوی میں فضیلت یا فوقیت دینے سے عاجزہو تو پھر اس رائے کو اختیار کرے جس میں احتیاط زیادہ ہو، مثلاً: ایک جانب وجوب کا قول ہو اور دوسری جانب استحباب کا تو وجوب والی رائے پر عمل کرے ۔ یا ایک جانب حرمت کا فتوی ہو اور دوسری جانب گنجائش کا تو حرمت والی رائے اختیار کرےگا۔  مثلاً: قراء ت خلف الامام کا جواز وعدمِ جواز، یہاں عدمِ جواز راجح ہے، جس نبیذ کی حرمت وحلت میں اختلاف ہو، وہاں احتیاطاً حرمت راجح ہوگی، وغیرہ وغیرہ۔

بہرحال غیر منصوص اجتہادی مسائل میں علماء کی آراء کے اختلاف کو نزاع کا باعث بنانا درست نہیں، صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین اور متقدمین سے اجتہادی مسائل میں آراء کا اختلاف بھی منقول ہے، لیکن اس کے ساتھ  اَدب کے ہر پہلو کی جتنی رعایت منقول ہے وہ ہماری لیے مشعلِ راہ ہے، صحابہ کرام کے دور میں اس کی کئی ایک مثالیں ملتی ہیں، مثلاً: غزوہ بنو قریظہ کے موقع پر  رسول اللہ ﷺ نے صحابہ کرام کو وہاں پہنچ کر نمازِ عصر کی ادائیگی کا کہا تھا، راستہ میں جب نماز قضا ہونے کا خدشہ ہوا تو بعض نے اصل علت کو سامنے رکھ کر راستہ ہی نماز پڑھ  لی اور بعض نے ظاہری الفاظ کو دیکھتے ہوئے نماز قضا ہوجانے دی، بعد میں جب حضور ﷺ سے پوچھا گیا تو دونوں کی تصویب فرمائی۔ بہرحال فقہاءِ امت کے اس اختلاف میں بھی امت کے لیے خیر کے دروازے کھلے ہوئے ہیں۔ فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144103200380

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں