بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 رمضان 1445ھ 28 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

ماہ واری روکنا


سوال

میری عمر 17 سال ہے،  میں ماہ واری کے خون کو پیشاب کی طرح کیو ں روک نہیں سکتی ہوں؟ کیوں کہ کبھی کبھی مجھے ماہ ورای اچانک سے آتی ہےاور زیادہ عمر والی عورت ماہ واری کے خون کو روک سکتی ہے کیا؟ 

جواب

عورت کو ماہ واری آنا  فطرت کا حصہ اور عورت کی صحت و تن دُرستی کی علامت ہے، نیز اسے روکنا طبی نقطۂ نگاہ سے عموماً مضر ہے، اور شریعت نے ان ایام میں اَحکام کے اعتبار سے سہولت دی ہے؛ لہٰذا دوا وغیرہ کے ذریعے بتکلف حیض کو روکنا مناسب نہیں ہے، تاہم دوا کے استعمال کے ذریعے اگر ماہواری روک  دی جائے تو  پاکی کے اَحکام لاگو ہوں گے، یعنی اس دوران نماز روزہ درست ہوگا۔ کم عمر لڑکی اور بڑی عمر کی عورت دونوں کے لیے حکم یک ساں ہے۔

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (1/ 283):

"(قوله: ابتلاء الله لحواء إلخ) أي وبقي في بناتها إلى يوم القيامة، وما قيل: إنه أول ما أرسل الحيض على بني إسرائيل فقد رده البخاري بقوله وحديث النبي صلى الله عليه وسلم أكبر، وهو ما رواه عن عائشة -رضي الله عنها- قالت: «قال رسول الله صلى الله عليه وسلم في الحيض: هذا شيء كتبه الله على بنات آدم». قال النووي: أي إنه عام في جميع بنات آدم".

وفیه:

"وبرده لایبقی ذا عذر، بخلاف الحائض.

(قوله: بخلاف الحائض) ... وهذا إذا منعته بعد نزوله إلی الفرج الخارج، کما أفاده البرکوي، لما مرّ أنه لایثبت الحیض إلا بالبروز، لا بالإحساس به، خلافاً لمحمد، فلو أحست به فوضعت الکرسف في الفرج الداخل ومنعته من الخروج فهي طاهرة، کما لو حبس المني في القصبة". (الدر مع الرد، کتاب الطهارة، باب الحیض، مطلب في أحکام المعذور، (1/308) ط: سعید)

جامعہ کے سابقہ فتاویٰ میں ہے:

’’اگر عورت کے لیے مانعِ حیض دوا کا استعمال مضر نہ ہو، عورت اسے برداشت بھی کرسکتی ہو اور اسے اس کا تجربہ بھی ہو تو یہ دوا حج کے موقع پر استعمال کرسکتی ہے، تاکہ حج کا رکن (طوافِ فرض) ادا کرنے میں کسی قسم کی پریشانی نہ ہو۔

اسی طرح رمضان میں بھی مانعِ حیض دوا کا استعمال کرنا جائزہے، لیکن جب شریعت نے سہولت اور چھوٹ دے رکھی ہے کہ بعد میں اسی قدر روزوں کی قضا کرلی جائے تو اس سے فائدہ اٹھانے کی بجائے دوا استعمال کرکے فطری چیز (ماہ واری) روکنا مناسب اور بہتر نہیں ہے‘‘۔ فقط واللہ اعلم

کتبہ: محمد مدنی (2/11/1420)  الجواب صحیح: محمد عبدالمجید دین پوری عفی عنہ۔ محمد عبدالقادر‘‘۔

ایک دوسرے فتویٰ میں ہے:

’’واضح رہے کہ اگر عورت کے لیے حیض کے روکنے کی دوا کا استعمال مضر نہ ہو، اور عورت اسے برداشت کرسکتی ہو تو عورت کے مانعِ حیض دوا استعمال کرنے کی دو صورتیں ہیں:

اگر حیض کے دن شروع ہوجائیں اور تین دن گزر جائیں، اس کے بعد حیض کے روکنے کی دوا لی جائے تو یہ دن بھی حیض میں شمار ہوں گے، جیساکہ ’’فتاویٰ خیریہ علی ہامش الفتاویٰ تنقیح الحامدیہ‘‘  میں ہے:

’’فأفاد أنّ کلّ صاحب عذر إذا منع نزوله بدواء أو غیره خرج عن کونه صاحب عذر بخلاف الحائض‘‘.

اگر حیض کے دن ابھی تک شروع نہیں ہوئے اور شروع ہونے سے پہلے حیض کے روکنے کی دوا لی جائے تو یہ دن حیض میں شمار نہیں ہوں گے، قرآن کی تلاوت، نماز کی ادائیگی اور روزہ اور ازدواجی تعلق جائز ہوگا‘‘. فقط واللہ اعلم

کتبہ: محمد اسلام (1/12/1422) الجواب صحیح:محمد عبدالمجید دین پوری عفی عنہ‘‘.

’’آپ کے مسائل اور ان کا حل‘‘  میں حضرت مولانا محمد یوسف لدھیانوی شہید رحمہ اللہ لکھتے ہیں:

’’یہ تو واضح ہے کہ جب تک ایام شروع نہیں ہوں گے عورت پاک ہی شمار ہوگی، اور اس کو رمضان کے روزے رکھنا صحیح ہوگا، رہا یہ کہ روکنا صحیح ہے یا نہیں؟ تو شرعاً روکنے پر کوئی پابندی نہیں، مگر شرط یہ ہے کہ اگر یہ فعل عورت کے لیے مضر ہو تو جائز نہیں‘‘. (آپ کے مسائل اور ان کا حل، کتاب الصوم، رمضان میں (عورتوں کے) مخصوص ایام کے مسائل، عنوانِ مسئلہ: دوائی کھاکر ایام روکنے والی عورت کا روزہ رکھنا، (4/570) ط: مکتبہ لدھیانوی، کراچی، طبع جدید) فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144107200066

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں