بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

7 شوال 1445ھ 16 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

کیا منکوحہ سے خلوتِ صحیحہ بھی اس کی بیٹی سے نکاح حرام ہونے کے لیے کافی ہے؟ / خلوت صحیحہ کن چیزوں میں صحبت کے قائم مقام ہے؟


سوال

{وربائبكم اللاتي في حجوركم من نساءكم اللاتي دخلتم بهن..... الآية} کیا مہر کی طرح رشتوں کی حرمت میں بھی خلوتِ صحیحہ صحبت کے حکم ہے؟  یا یہ حکم صرف مہر  کے ساتھ خاص ہے؟

جواب

’’خلوتِ صحیحہ‘‘  بعض احکام میں وطی (صحبت) کے قائم مقام ہے اور بعض میں نہیں ہے، خلوتِ صحیحہ مہر کی تاکد، نسب کے ثبوت، عدت، نفقہ، سکنی، منکوحہ کی بہن سے نکاح کی حرمت ، چار عورتوں کی موجودگی میں پانچویں سے نکاح،  عورت کے حق میں طلاق کے وقت کی رعایت،خلوت کے بعد عدت میں  دوسری طلاق کے واقع ہونے وغیرہ میں وطی (صحبت) کے قائم مقام ہے۔ جب کہ غسل کے وجوب، زنا میں محصن ہونے کے لیے،  منکوحہ کی بیٹیوں سے نکاح حرام ہونے میں، تین طلاق کے بعد پہلے شوہر کے لیے حلال ہونے میں، رجوع اور میراث وغیرہ میں ’’خلوتِ صحیحہ‘‘ وطی کے قائم مقام نہیں ہے۔

لہذا صورتِ مسئولہ میں عورت سے نکاح کے بعد  صرف ’’خلوتِ صحیحہ‘‘ سے اس کی بیٹی حرام نہیں ہوجاتی، جب تک اس سے ہم بستری نہ کرلی جائے یا شہوت سے چھو نہ لیا جائے۔

الفتاوى الهندية (1/ 306):
"وأصحابنا أقاموا الخلوة الصحيحة مقام الوطء في حق بعض الأحكام دون البعض، فأقاموها مقامه في حق تأكد المهر وثبوت النسب والعدة والنفقة والسكنى في هذه العدة وحرمة نكاح أختها وأربع سواها وحرمة نكاح الأمة على قياس قول أبي حنيفة - رحمه الله تعالى - ومراعاة وقت الطلاق في حقها. ولم يقيموها مقام الوطء في حق الإحصان وحرمة البنات وحلها للأول والرجعة والميراث، وأما في حق وقوع طلاق آخر ففيه روايتان، والأقرب أن يقع".

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (3/ 117۔119):
"(كالوطء) فيما يجيء (ولو) كان الزوج (مجبوباً أو عنيناً أو خصياً) أو خنثى إن ظهر حاله وإلا فنكاحه موقوف، وما في البحر والأشباه ليس على ظاهره كما بسطه في النهر.  وفيه عن شرح الوهبانية: أن العنة قد تكون لمرض أو ضعف خلقة أو كبر سن (في ثبوت النسب) ولو من المجبوب (و) في (تأكد المهر) المسمى (و) مهر المثل بلا تسمية و (النفقة والسكنى والعدة وحرمة نكاح أختها وأربع سواها) في عدتها  (وحرمة نكاح الأمة ومراعاة وقت الطلاق في حقها)وكذا في وقوع طلاق بائن آخر على المختار (لا) تكون كالوطء (في حق) بقية الأحكام كالغسل و (الإحصان وحرمة البنات وحلها للأول والرجعة).
(قوله: وحرمة البنات) أي لم يقيموا الخلو مقام الوطء في ذلك، فلو خلا بزوجته بدون وطء ولا مس بشهوة لم تحرم عليه بناتها، بخلاف الوطء، والكلام في الخلوة الصحيحة كما صرح به في التبيين والفتح وغيرهما، فما حرره في عقد الفرائد مما حاصله أن حرمة البنات بالخلوة الصحيحة لا خلاف بين الصاحبين، والخلاف في الفاسدة. قال الثاني: تحرم، وقال محمد: لاتحرم، فهو ضعيف، ومما ادعاه من عدم الخلاف ممنوع كما بسطه في النهر". 
فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144008201307

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں