بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

7 شوال 1445ھ 16 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

ماں، بہن اور بیوی کے حقوق


سوال

 میرا سوال ماں، بہن اور بیوی کے حقوق سے متعلق ہے، اگر انسان شادی کرلے اور گھر میں ماں اور بہن بھی ساتھ ہوں، تو عموما سب ہی گھروں میں نوک جھونک ہوتی ہی ہے، ایسے حالات میں شوہر کو کیا کرنا چاہئے، ماں ، بہن اور بیوی کے حقوق میں کیسے فرق کریں، یعنی کس کی بات کو زیادی اہمیت دیں، نیز بیوی کی غلامی اور بیوی کی عزت اور حقوق بھی واضح کردیں۔

جواب

شریعت مطہرہ نے ماں ،بہن اور بیوی ہر ایک  کو علیحدہ حیثیت اورمرتبہ دیا ہے اور ہر ایک  کے علیحدہ حقوق مقرر کئے ہیں اس طور پر کہ ہر ایک کہ کے مرتبہ اور مقام کو سمجھ کر اگر کوئی شخص ان کے حقوق کی بجا آوری کرے تو کبھی ٹکراؤ کی کوئی کیفیت پیدا ہونے کی نوبت ہی نہیں آئے، چہ جائیکہ ایسی نوبت آئے کہ  بندہ اس تذبذب میں مبتلاء ہوجائے کہ کس کی بات کو زیادہ اھمیت دی جائے۔ بس اتنا سمجھنے کی ضرورت ہے کہ اللہ رب العزت نے ماں کے حقوق کی ادائیگی کے ساتھ ساتھ ماں کی اطاعت وفرمانبرداری کو بھی لازم قرار دیا ہے جبکہ بیوی کے صرف حقوق کی ادائیگی لازم ہے نہ کہ اس کی اطاعت شعاری وفرمانبرداری، بلکہ بیوی کے ذمہ لازم ہے کہ وہ اپنے شوھر کی مطیع وفرمانبردار بن کے رہے۔ اس بنیاد کو سمجھ لینے کے بعد یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ جب ترجیح دینے کی بات آئے تو ماں کا رشتہ قابل ترجیح ہے ، احترام ہر ایک کو اپنے مرتبہ کے لحاظ سے حاصل ہے اور ذمہ داریاں بھی سب  سے متعلق الگ الگ طے ہیں۔ اب رہی بات بیوی کی غلامی، اس کی عزت اور حقوق سے متعلق تو یاد رہے کہ اسلامی تعلیمات کے مطابق میاں بیوی کے رشتے میں قانونی ضابطوں کی بجائے اخلاقی معیاروں کی پاسداری مطلوب ہے۔ میاں بیوی میں سے ہر ایک دوسرے کے حقوق ادا کرنے، اور اپنے حقوق کے مطالبے کے بارے میں درگزر کرنے کا رویہ اپنانے کی ٹھان لے تو نہ میاں کو بیوی سے شکوہ ہوگا اور نہ بیوی کومیاں سے۔واللہ اعلم


فتوی نمبر : 143708200047

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں