بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 رمضان 1445ھ 29 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

مانعِ حمل گولی کھانے پر طلاق معلق تھی اور ڈاکٹر نے استقرار حمل کے لیے وہی گولی تجویز کی


سوال

ایک آدمی نے اپنی بیوی کو خاص گولی(جومانع حمل ہے)کھانے سےمنع کیا ہے اور اس کو بتایاہے کہ اگر تونے اس گولی کو کھایا،کلاً طلاقی. ایک سال کے قریب کے گزرنے کے بعد زوجین دونوں ڈاکٹرمتخصص کے پاس جاتے ہیں؛ تاکہ بیوی حاملہ ہوجائے اور دو نوں ڈاکٹراسی گولی کو تجویز کرتے ہیں کہ ایک مدت تک اس کا کھانا ضروری ہے، اس لیے کہ رحم ضعیف ہو چکاہے تاکہ دوبارہ حمل کے لیے آمادہ ہوجائے اس لیے شوہر بھی کہتاہے اب تو مجاز ہے، اس گولی کو کھاؤ.اور بیوی نے کھالی ہے.

اب سوال یہ ہے کہ کیا تجویز  پزشک متخصص اور بچہ کی ضرورت کی لحاظ سے،تعلیق باطل ہوگی یا نہیں؟ اور طلاق واقع ہوگئی ہے؟ اور کتنی واقع ہوچکیں ہیں؟

جواب

صورتِ  مسئولہ میں شوہر نے بیوی کو جس مانعِ حمل گولی کھانے سے منع کرتے ہوئے اس پر طلاق معلق کی تھی اور اس کا مقصد حمل روکنے سے منع کرنا تھا، ڈاکٹر نے استقرارِ حمل کے لیے جب وہی گولی تجویز کی ہے تو اس غرض سے اسے کھالینے  کی وجہ سے کوئی طلاق واقع نہیں ہوئی، کیوں کہ شوہر کا گولی  کھانے سے روکنے کا مقصد مانعِ حمل تدبیر اختیار کرنے سے روکنا تھاجب کہ بیوی نے ڈاکٹر کے کہنے پر استقرارِ حمل کے لیے وہی گولیاں کھائی ہیں اور یوں جس امر  پر طلاق معلق تھی یعنی مانعِ حمل تدبیر اختیار کرنا وہ نہیں پایا گیا، اس وجہ سے وہی گولیاں کھانے سے طلاق واقع نہیں ہوئی۔

  حاشية رد المحتار على الدر المختار(3 / 797):
"(قوله: لتقييده من جهة المعنى بحال إنكاره) أي كما لو حلف المديون لغريمه أن لايخرج من البلد إلا بإذنه فإنه مقيد بحال قيام الدين لكن هذا التعليل لايظهر بالنسبة إلى قوله: "أو ظهر شهود"؛ فإنه بظهور الشهود لم يزل الإنكار بل العلة فيه أنه بعد ظهور الشهود لايمكن التحليف، تأمل. وفي البرازية: حلفه ليوفين حقه يوم كذا وليأخذن بيده ولاينصرف بلاإذنه فأوفاه اليوم ولم يأخذ بيده وانصرف بلا إذنه لايحنث؛ لأن المقصود هو الإيفاء اهـ  قلت: وقد تقدم أن الأيمان مبنية على الألفاظ لا على الأغراض وهذا المقصود غير ملفوظ لكن قدمنا أن العرف يصلح مخصصًا وهنا كذلك فإن العرف يخصص ذلك بحال قيام الدين قبل الإيفاء ويوضحه أيضًا ما يأتي قريبًا عن التبيين.

تنبيه: رأيت بخط شيخ مشايخنا السائحاني عند قول الشارح: لو حلف أن يجره الخ هذا يفيد أن من حلف أن يشتكي فلانًا ثم تصالحا وزال قصد الإضرار واختشى عليه من الشكاية يسقط اليمين؛ لأنه مقيد في المعنىء بدوام حالة استحقاق الانتقام كما ظهر لي ا هـ فتأمله". فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144107200178

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں