پچھلی امتوں میں مالِ غنیمت کو آسمان سے آگ آکر جلا دیتی تھی تو اس وقت مالِ غنیمت میں حاصل غلام اور باندیوں کا کیا حکم ہوتاتھا؟ کس اعتبار سے اس کو تقسیم کیا جاتا تھا؟
واضح رہے کہ پچھلی امتوں میں جہاد سے حاصل ہونے والے مالِ غنیمت کی قبولیت کی نشانی یہ ہوتی تھی کہ آسمان سے آگ آ کر اس کو جلا دیتی تھی، تاہم غلام اور باندیاں اس حکم سے مستثنیٰ ہوتے تھے اور ان کو پھر اس وقت کے شریعت کے قانون کے مطابق تقسیم کیا جاتا تھا۔
فتح الباری لابن حجر میں ہے:
"وفيه: أن من مضى كانوا يغزون ويأخذون أموال أعدائهم وأسلابهم لكن لايتصرفون فيها بل يجمعونها وعلامة قبول غزوهم ذلك أن تنزل النار من السماء فتأكلها وعلامة عدم قبوله أن لاتنزل، ومن أسباب عدم القبول أن يقع فيهم الغلول، وقد من الله على هذه الأمة ورحمها لشرف نبيها عنده، فأحل لهم الغنيمة وستر عليهم الغلول، فطوى عنهم فضيحة أمر عدم القبول؛ فلله الحمد على نعمه تترى، ودخل في عموم أكل النار الغنيمة والسبي، وفيه بعد؛ لأن مقتضاه إهلاك الذرية ومن لم يقاتل من النساء! ويمكن أن يستثنوا من ذلك ويلزم استثناؤهم من تحريم الغنائم عليهم، ويؤيده أنهم كانت لهم عبيد وإماء؛ فلو لم يجز لهم السبي لما كان لهم أرقاء". (فتح الباري، قوله باب قول النبي صلى الله عليه وسلم أحلت لكم الغنائم ج:6، ص: 221، ط: دارالمعرفة) فقط والله أعلم
فتوی نمبر : 144012200871
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن