بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

10 شوال 1445ھ 19 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

مالِ تجارت کی زکاۃ میں تھوک کی قیمت کا اعتبار یا ریٹیل کا


سوال

زکاۃ  کی ادائیگی میں قیمتِ فروخت کا اعتبارہے, اب پوچھنایہ ہےکہ ایک دوکان دار سامان تھوک کےحساب سےجب فروخت کرتاہے تونسبتاً سستا فروخت کرتاہے اور جب تھوڑاتھوڑا  بیچتاہےتوکچھ مہنگا بیچتاہے, اب یہ دوکان دار زکاۃ  نکالتےوقت تھوک والی قیمت کےحساب سےزکاۃ  دےگا یاتھوڑاتھوڑا بیچنےکی قیمت کااعتبارکرےگا؟

جواب

دکان دار کو چاہیے کہ اس بات کا حساب لگائے کہ سال میں  کتنا  مال تھوک  میں فروخت کرتا ہے اور کتنا مال تھوڑا تھوڑا (ریٹیل) بیچتا ہے، مثلاً ۷۰ فیصد تھوک اور ۳۰ فیصد ریٹیل۔پھر جو سامان سال کے آخر میں موجود ہو اس کی قیمت  اسی تناسب سے  لگائے، یعنی بعض مال کی قیمت تھوک کے حساب سے اور بعض مال کی قیمت تھوڑے تھوڑے کے حساب سے مثلاً اگر سال کے آخر میں ۱۰۰۰ پیس بچے ہوئے ہیں تو ۷۰ فیصد کی قیمت تھوک والی لگائےاور ۳۰ فیصد کی قیمت ریٹیل  والی لگائے۔اور پھر کل قیمت کا ڈھائی فیصد زکاۃ ادا کردے۔ اگر یقینی طور پر یاد نہ ہو تو غالب گمان کا اعتبار کرکے اندازا کرلے، اور احتیاطاً کچھ زائد رقم ادا کردے۔

"الزکاة واجبة في عروض التجارة کائنة ماکانت إذابلغت قیمتها نصاباً…" ( الفتاویٰ الهندیة :۱۷۹ / ۱)
"وإذاکان تقدیر النصاب من أموال التجارة بقیمتها من الذهب والفضة وهوان تبلغ قیمتها مقدارنصاب من الذهب والفضة، فلابدمن التقویم حتی یعرف مقدارالنصاب…" ( بدائع الصنائع :۱۱۰ / ۲ ) 
"وکذلک زکاة مال التجارة یجب بالقیمة والکلام فیه في فصول أحدها أن الزکاة تجب في عروض التجارة إذاحال الحول عندنا…" ( المبسوط :۲۵۵ / ۲ ) 

الموسوعةالفقهيةالكويتية(34/132):
"قيمة
التعريف:
1 -القيمة في اللغة : الثمن الذي يقوم به المتاع ، والقيمة واحدة القيم ، وهي ثمن الشيء بالتقويم .
وفي الاصطلاح : ما قوم به الشيء بمنزلة المعيار من غير زيادة ولا نقصان---" الخ

الدر المختار :

"ویقوم في البلد الذی المال فیه". فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144008200358

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں